عمران کی فراغت پر ‘ویگو ڈالا’ کیوں ٹرینڈ کرنے لگا؟

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت لفظ ’ویگو‘ ٹرینڈ کر رہا ہے جس کی وجہ یہ نہیں کہ اس پک اپ ٹرک کا کوئی نیا ماڈل مارکیٹ میں آ رہا جس کے فیچرز جاننے کے لیے لوگ بے قرار ہیں۔ دراصل
یہ ٹرینڈ پی ٹی آئی کی جانب سے چلایا گیا ہے
جس کے سوشل میڈیا ہمدرد اس وقت عمران خان کی وزارت عظمی سے فراغت پر سیخ پا نظر آتے ہیں اور فوج کا لتاڑا نکال رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں آئینی طریقہ کار کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیے جانے کے باوجود عمران کے حامی ان کا بیچا ہوا یہ چورن آگے فروخت کر رہے ہیں کہ خان صاحب کو ایک غیر ملکی سازش کے نتیجے میں نکالا گیا ہے۔
اپنے اقتدار کے آخری روز عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو فارغ کرنے کی ناکام کوشش کے بعد اب کپتان کے حامیوں کو یقین ہو چکا ہے کہ اس نام نہاد سازش میں اسٹیبلشمنٹ بھی شریک تھی، لہذا اتوار کے روز عمران کی کال پر ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں آرمی چیف کے خلاف نہایت نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے عمران خان کے ساتھی اب سوشل میڈیا پر فوجی قیادت کو گالی گلوچ کرکے یہ چیلنج بھی دے رہے ہیں کہ اگر ایجنسیوں والے ہمیں "ویگو ڈالے” میں ڈال کر لے جانا چاہتے ہیں تو لے جائیں لیکن انکے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں عمران خان کے حامی اتوار کے روز سڑکوں پر نکلے اتنے تعداد میں تو ڈالے ہی موجود نہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ان کے وزیر اعظم نہ رہنے پر ان کی جماعت تحریک انصاف نے جب اتوار کو احتجاجی مظاہرے کیے تو اس دوران ایک پلے کارڈ نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری کے لیے بھی یہ پلے کارڈ اُن کا فیورٹ تھا جس پر لکھا تھا کہ ’اتنے ویگو کہاں سے لاؤ گے؟‘ یہ پیغام کس کے لیے تھا، یہ تو نہیں بتایا گیا مگر کالی ویگو کا حوالہ اس قدر بڑھ گیا کہ یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا اور پی ٹی آئی کے حمایتیوں نے ایک دوسرے کو ویگو سے محتاط رہنے کا مشورہ دینا شروع کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران کے دور میں یہی ویگو ڈالے حکومت کے ناقد صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو اٹھانے اور غائب کرنے کے لیے متحرک ہوتے تھے۔
اب سوال یہنہے کہ یہ ویگو آخر ہے کیا؟ ویگو نام پہلی بار تب سامنے آیا جب ٹویوٹا نے اپنے پک اپ ٹرک ’ہائیلکس‘ کی ساتویں جنریشن 2004 میں تھائی لینڈ میں متعارف کرائی۔ ٹویوٹا ہائیلکس 1968 میں متعارف کروایا گیا تھا اور یہ نام ‘ہائی’ اور ‘لگژری’ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ اپنی
مضبوطی اور کمفرٹ کی علامت سمجھا جانے والا ’ویگو ڈالا‘ کم از کم 140 ملکوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پاکستان میں ویگو 2010 کے بعد متعارف کروایا گیا لیکن ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں اس کے زیادہ تر خریدار عام لوگ یا شہری نہیں تھے۔ عرصہ دراز تک ٹویوٹا آئی ایم سی پک اپ ٹرک بنانے میں پاکستان کی واحد کمپنی رہی ہے اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی اس گاڑی کو اکثر سرکاری پروٹوکولز اور اہم شخصیات کے سکیورٹی قافلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چاہے بات ’ویگو ڈالے‘ کی ہو یا لینڈ کروزر کی، ٹویوٹا کی یہ رف اینڈ ٹف گاڑیاں آف روڈنگ کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہیں اور کسی جیپ میں اتنی رفتار نہیں جتنی اس 2.7 لیٹر انجن کی گاڑی میں ہے جو 100 ایچ پی ہارس پاور پیدا کرتا ہے۔
وسیع پیمانے پر بکنے والے ویگو ڈالے کے پرانے ماڈلز کے سپیئر پارٹس عالمی سطح پر ہر جگہ ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ ان کی مرمت عام اوزاروں سے کی جا سکتی ہے کیونکہ ان میں کوئی پیچیدہ الیکٹرانک سسٹم نہیں۔ سب سے بڑھ کر اِن کی فیول اکانومی بھی کچھ زیادہ بُری نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ویران یا گنجان دونوں طرح کے علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ویگو ڈالے سے بھرپور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ مگر اکثر جو چیز دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے وہ کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
چاڈ اور لیبیا کی سرحد پر ہونے والی لڑائی کو ’ٹویوٹا وار‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ اس دوران جنگجوؤں کے پاس ٹویوٹا کے لائٹ پک اپ ٹرکس تھے جن کی مدد سے وہ حملے کرتے اور حملے روکتے تھے۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کے پاس ہر جگہ یہ پک اپ ٹرک نظر آتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر مارک والس نے تسلیم کیا تھا کہ ٹویوٹا لینڈ کروزر اور ہائیلکس آئی ایس آئی ایس یا دانش کے برانڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ٹویوٹا نے امریکی حکام کو بتایا تھا کہ ان گاڑیوں کا پراملٹری یا دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال روکنے کے حوالے سے سخت پالیسی مرتب کی گئی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں انتہا پسند گروہوں کے پاس انھی پک اپ ٹرکس کے بیڑے دیکھے گئے ہیں۔
ٹویوٹا ہائی لکس کو پاکستان میں عموماً ویگو کے نام سے پکارا جاتا ہ
ے اور اب یہاں اس کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک خوف کا عنصر جڑا ہوا ہے کیونکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی اداروں کی کئی رپورٹس میں متاثرین کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے کہ شہریوں کے خلاف ہونے والے مبینہ جرائم میں یہ ویگو ڈالے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
بلوچستان میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزکے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات کے لیے جو گاڑیاں استعمال ہوتی رہی ہیں ان میں ویگو گاڑیاں شامل رہی ہیں۔ عمران کے دور میں حکومت کے ناقد صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی گرفتاری کے لیے بھی انہی وگو ڈالوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ کالی شیشوں والی یہ ویگو گاڑیاں زیادہ تر بغیر نمبر پلیٹ ہوتی ہیں۔
اس وقت ٹوئٹر پر بھی پی ٹی آئی کے حامی افراد کے میمز سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ انھیں کسی کالی ویگو کی آمد کا خوف ہے لیکن انھیں یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان میں اتنی گاڑیاں ہی موجود نہیں جتنے کہ عمران خان کے حمایتی ہیں۔ ایسے ہی ایک صارف شہباز قاسمانی نے پیشگوئی کی کہ ’ملک میں کالے ویگو کا بحران پہدس ہونے والا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ رات ویگو سے شروع ہونے والی بات یہیں تک محدود نہیں رہی۔ سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے اپنے ’چار سال کے تجربے کی بنیاد پر‘ نوجوانوں کو ویگو سے بچنے کے لیے کچھ حفاظتی اقدامات بھی بتا دیے ہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ ’گھر میں کیمرے لگوائے، اس کی میموری ڈسک کسی خفیہ جگہ لگائیں اور اٹھائے جانے کی صورت میں فوراً فوٹیح پبلک کریں۔
عمران خان کیخلاف غداری مقدمہ کی درخواست مسترد
ان کے مطابق ویڈیو سیک بہترین ثبوت ہے۔ ’جہاں ممکن ہو کوشش کریں کہ موبائل سے ویڈیو بنائیں۔ فورا پولیس میں رپورٹ لکھوائیں، ایف آئی آر نہ لی جائے تو بھی بضد رہیں، کم از کم روزنامچہ لکھوائیں۔ اور ٹوئٹر ٹرینڈ چلانا تو آپ کو خود آتا ہے۔‘ گلالئی نے لکھا کہ جو نوجوان ٹرینڈ چلا رہے ہیں اور انھیں ویگو کا خطرہ ہو، میں انھیں کچھ حفاظتی اقدامات بتانا چاہتی ہوں اپنے پچھلے چار سال کے تجربے کی بنیاد پر- اپنےگھر میں CCTV کیمرے لگوائے، اور اسکی میموری ڈسک کسی خفیہ جگہ لگائے-
اٹھائے جانے کی صورت میں فورا فوٹیح پبلک کریں- گلالئی کہتی ہیں کہ ‘لوگ آپ کو گالیاں دیں گے اور کہیں گے کہ آپ یہ سب کچھ بیرون ملک شہریت کے حصول کے لیے کر رہے ہیں۔ کوئی کہے گا کہ شہرت کے لیے، شاید کوئی ایجنسیوں سے بھی جوڑیں، لیکن یاد رکھیے گا کہ جب آپ کا کوئی پیارا ویگو میں اٹھا کر لے جایا جا چکا ہو تو آپ نے توجہ صرف اس کی بازیابی پر رکھنی ہے۔ گالیوں، طعنوں اور کردار کشی کی فکر نہیں کرنی۔‘