جاوید ہاشمی اور پرویز رشید دیوار کے ساتھ کیوں لگا دیے گئے؟


سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ووٹ کو عزت دو کا مزاحمتی بیانیہ لیکر چلنے والے دو سینئر لیگی رہنما جاوید ہاشمی اور پرویز رشید اپنی ہی جماعت میں اپنے بیانیے کی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بظاہر اب کوئی لیگی رہنما انکی آواز میں آواز ملانے کے لیے ان کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ یوں یہ دونوں سینئر سیاستدان اپنے اصولی موقف کی وجہ سے نواز لیگ میں مس فٹ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ پرویز رشید اور جاوید ہاشمی دونوں کا نون لیگ کی سیاست میں زوال سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہاتھوں ہوا۔
یاد رہے کہ جاوید ہاشمی کی لیگی قیادت سے تب ناراضی ہوئی جب ان کی جگہ چوہدری نثار کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کیا گیا۔ اسی طرح نواز شریف کی کابینہ سے پرویز رشید کی بے دخلی کی بنیادی وجہ بھی چودھری نثار علی خان کی بطور وزیر داخلہ ڈان لیکس معاملے کی پیش کردہ وہ تحقیقاتی رپورٹ تھی جس میں تب کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کر ایک خفیہ اجلاس کی خبر لیک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ تاہم مکافات عمل کے نظریے کے عین مطابق آج چوہدری نثار علی خان بھی سیاست میں بلندی سے پستی کے سفر کی طرف گامزن ہیں اور نواز لیگ اور عملی سیاست دونوں سے مکمل آوٹ ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ جنرل مشرف کی حکومت کے دوران جب شریف خاندان کو ایک معاہدہ کے تحت ملک اور ملکی سیاست سے بے دخل کردیا گیا تو مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ نواز کے صدر بنا دیے گئے اور میاں صاحب کی وطن واپسی تک وہ اِس عہدے پر متمکن رہے۔ اِس دوران جاوید ہاشمی پر بھرپور آزمائش کا دور بھی آیا جب 2003 میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے مبینہ طور پر فوج کے جونئیر افسران کی جانب سے سینئر افسران کے خلاف لکھا جانے والا ایک خط پیش کیا اور چند سوالات اُٹھائے۔ اِس کی پاداش میں ہاشمی کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابندِ سلاسل کردیا گیا اور وہیں اُن پر مقدمہ بھی چلتا رہا۔
قید و بند کا یہ دور اُنہوں نے بہت ثابت قدمی سے برداشت کیا اور حکومتِ وقت سے معافی تلافی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اِس پر نہ صرف پارٹی کی صفوں میں اُن کا قد اونچا ہوا بلکہ خود پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے بھی اُنہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔
اِن ظاہری حالات کے برعکس یہیں سے نواز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان تعلقات سرد مہری کی طرف بڑھنے لگے جس کا انجام ن لیگ سے اُن کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنرل مشرف حکومت کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد جاوید ہاشمی خود کو اپنے دیگر ساتھیوں کی نسبت پارٹی میں ترجیحی سلوک کا حقدار سمجھنے لگے تھے۔ مگر اُن کے اِس زعم کو پہلی ٹھیس تب پہنچی جب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اُن کے بجائے چوہدری نثار علی خان کو 2008 کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مقرر کردیا گیا۔ پھر اِس کے بعد جاوید ہاشمی کی شدید خواہش کے باوجود 2008 کے صدارتی انتخاب میں نواز شریف نے اُنہیں پارٹی کا اُمیدوار نامزد کرنے سے انکار کردیا۔ صاف ظاہر تھا کہ پارٹی قائد اب جاوید ہاشمی کو وہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے جسے ہاشمی اپنا حق گردانتے تھے گویا، (ن) لیگ میں اُن کی سیاست جمود کا شکار ہونے لگی تھی۔
30 اکتوبر 2011 کے بعد جب ہر سُو پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے چئیرمین عمران خان کا طوطی بولنے لگا تو ایسا لگتا تھا گویا نواز شریف کی ساری مقبولیت یہ سیل رواں اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ تب جاوید ہاشمی سیاست کی دنیا کا بڑا نام ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے لیے ایک شاندار آپشن تھے، اور پھر اِس قد کے رہنما کی جانب سے پارٹی چھوڑنے سے (ن) لیگ کے کمزور ہونے کا تاثر بھی پیدا ہوتا جو تحریک انصاف کے لیے نہایت اہم سیاسی کامیابی ہوتی۔ اتفاق سے یہ تحریک انصاف اور جاوید ہاشمی کے سیاسی مفادات کا نکتہ اشتراک ثابت ہوا اور پارٹی قیادت سے شاکی جاوید ہاشمی نے (ن) لیگ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا اور یہاں تک کہ بیگم کلثوم نواز کی جانب سے جماعت نہ چھوڑنے کی درخواست بھی رد کردی۔
دوسری جانب تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ اُنہیں پارٹی صدر بنا دیا گیا اور 2013 کے عام انتخابات بھی ہاشمی صاحب نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے اور متعدد حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ پی ٹی آئی میں جاوید ہاشمی پارٹی صدر تو تھے لیکن اُن کی حیثیت کم و بیش وہی تھی جو صدرِ پاکستان کی ہوتی ہے۔ پارٹی کے تمام معاملات عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے گرد گھومتے اور صدر کا عہدہ صرف ایک نمائشی حیثیت کا حامل تھا۔ درحقیقت یہ اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ تحریک انصاف اول تا آخر عمران خان کے نام پر ہی کھڑی ہے اور اُس میں کسی اور کے لیے مختار ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گو بقول عمران خان وہ اُنہیں ہر مشورے میں شامل رکھتے تھے لیکن جاوید ہاشمی کا دل وہاں سے اکتانے لگا اور 2014 کے دھرنے اور اُس دوران وقوع پذیر ہونے والے چند متنازعہ اقدامات سے جاوید ہاشمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اُنہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پریس کانفرنس کی اور دھرنے کے پسِ منظر کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا، جو تحریک انصاف سے اُن کی علیحدگی کی وجہ بنی۔
بعد ازاں اُنہوں نے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا۔ تاہم عام توقع کے برعکس اُنہوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی، گوکہ وقتاً فوقتاً اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں کے طفیل وہ (ن) لیگ کی مدد کو ضرور پہنچتے رہے۔ بالخصوص عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف صاحب کی کشمکش کے حوالے سے وہ کافی کھری کھری کہتے رہے۔ اِس بیچ اُنہوں نے اپنی چھوڑی ہوئی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں آزاد حیثیت میں حصہ بھی لیا، مگر (ن) لیگ کی درپردہ حمایت کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔
بعد ازاں جاوید ہاشمی نے نواز لیگ چھوڑنے کو اپنی غلطی قرار دیتے ہوئے دوبارہ سے نوازشریف کے ساتھ ملا لیا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ پارٹی میں اپنا سابقہ مرتبہ اور مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور انہیں نواز لیگ کے معاملات سے دور ہی رکھا جاتا ہے حالانکہ وہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چل رہی ہیں جس کی انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق دست راست پرویز رشید کا بھی نواز لیگ میں حال پتلا ہی ہے۔ انہیں مریم نواز کے اتالیق ہونے اور انہیں باغی بنانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں سینیٹ الیکشن کے لیے بھی نااہل قرار دلوا دیا تھا۔
لیکن اصل میں انکے برے دنوں کا آغاز بھی نواز شریف کے آخری دور حکومت میں تب کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہاتھوں ہوا تھا۔ تب وزیراعظم نواز شریف نے نثار کی جانب سے پیش کردہ اس تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کر لیا تھا جس میں قومی سلامتی کے اجلاس سے متعلق ڈان اخبار میں لیک ہونے والی خبر کا مدعا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید پر ڈال دیا گیا تھا۔ چنانچہ ان سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ چھ اکتوبر 2016 کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کے متعلق ہونے والی میٹنگ سے متعلق خبر شائع ہونے سے قومی سلامتی خطرے میں ڈال دی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ وزیرِ اطلاعات کی کوتاہی کی وجہ سے پیش آیا اور اسی لیے انھیں اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔اعلامیے کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے اعلیٰ اہلکار شامل ہوں گے اور اس کمیٹی کا مقصد واضح طور پر واقعے کے ذمہ داران کی نشاندہی کرنا ہے۔
اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ایک جھوٹی خبر نہ رکوانا پرویز رشید کا قصور ہے اور انکی کوتاہی یہ ہے کہ بطور وزیرِ اطلاعات انھوں نے اپنی ذمہ داری درست طریقے سے ادا نہیں کی۔ ان کے مطابق پرویز رشید کے حوالے سے دستاویزی اور دیگر معلومات سے معلوم ہوا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ ایک صحافی کے پاس وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کوئی خبر ہے تو انھوں نے اس صحافی کو دفتر طلب کیا اور اس سے ملاقات کی۔
انھوں نے کہا کہ ‘جب صحافی نے اس خبر کے سلسلے میں پرویز رشید سے ملاقات کی تو ‘انھیں کہنا چاہیے تھا کہ خبر غلط ہے اور قومی مفاد میں اسے نہ چھاپیں اور اگر وہ بات نہ مانتا تو پرویز رشید کو ڈان کے مدیر اور انتظامیہ سے بات کرنی چاہیے تھی۔’ تاہم یہ اور بات کے بعد ازاں یہ خبر درست ثابت ہوئی اور آج پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اسی ڈان لیکس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جسے نواز شریف دور میں پرویز رشید کے کھاتے میں ڈال کر ایک سکینڈل بنا دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی پرویز رشید اور جاوید ہاشمی دونوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور نواز لیگ کی مرکزی قیادت خود بھی کھل کر ان کے باغیانہ بیانیے کی حمایت کرتی نظر نہیں آتی۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاست کے ٹکسال میں اب جاوید ہاشمی اور پرویز رشید جیسے سکے نہیں ڈھلتے۔ سکہ رائج الوقت کچھ اور ہے۔ اس کے مظاہر ہمارے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ اب جب لوگوں کی تجوری بھر جاتی تو وہ اپنی دولت محفوظ بنانے کے لیے بازار سیاست کا رخ کرتے ہیں۔ اور سیاست کی منڈی میں تو ظاہر ہے کہ صرف اقتدار کا کاروبار ہوتا ہے۔ یوں سیاست‘ سرمایہ داروں، پراپرٹی ڈیلرز اور دیگر تجارتی پس منظر رکھنے والوں کے گھر کی باندی بن چکی۔ لہازا اب کون سا نظریہ اور کہاں کے نظریاتی لوگ؟ چنانچہ جاوید ہاشمی اور پرویز رشید جیسے قیمتی سکوں کا متروک ہو جانا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

Back to top button