فوج کے سیاسی کردار کے ناقد سیاستدان غدار کیسے بنا دیئے گئے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ کیمونسٹ پارٹی پہلی سیاسی جماعت تھی جسے 1954 میں کالعدم قرار دیا گیا۔ اس پر فردِ جرم یہ تھی کہ اس نے فوج کے کچھ افسروں سے مل کر شہید وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت برطرف کرنے کی سازش رچائی تھی۔ یہ تاریخ میں پنڈی سازش کیس کے نام سے محفوظ ہے۔ وسعت اللہ خان کے مطابق پنڈی ساز ش کیس میں ملوث قرار پانے والے دو بڑے سازشیوں میں سے ایک فیض احمد فیض کا کلام اب جماعتِ اسلامی سے لے کر شہباز شریف تک ہر کوئی اپنی تقاریر میں بلاججھک استعمال کرتا ہے جبکہ بنیادی سازشی میجر جنرل ریٹائرڈ اکبر خان نے بعد ازاں بھٹو حکومت میں مشیرِ قومی سلامتی کے فرائض انجام دیے جبکہ تیسرے سازشی سجاد ظہیر کو پنڈت جواہر لال نہرو کی درخواست پر پاکستان بدر کر دیا گیا۔

وسعت اللہ خان کے مطابق مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کروانے والے حسین شہید سہروردی کو پہلے محبِ وطن پاکستانی کا تمغہ ملا، پھر غداری کا سرٹیفکیٹ تھمایا گیا، پھر وزیرِ اعظم بنے اور پھر بطور غدار بیروت میں وفات پا گئے۔اسی طرح ولی خان کے والد خان عبدالغفار خان ملک بننے کے بعد کے ابتدائی غداروں میں سرِفہرست تھے۔ ان کے بیٹے بھی ’مشکوک پاکستانی‘ قرار پائے۔ آج پشاور کا ایئرپورٹ باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے اور مردان میں خان عبدالولی خان یونیورسٹی قائم ہے۔

 وسعت اللہ خان کے بقول اکبر بگٹی زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ نواز سمجھے جاتے رہے۔ آخری وقت میں جانے کیا سوجھی کہ ’غداری‘ کے راستے پر چل پڑے۔ اتنا تجربہ کار سیاستداں جو نائب وزیرِ دفاع، گورنر اور وزیرِ اعلیٰ رہا یہ سامنے کا نکتہ نہ سمجھ سکا کہ اسٹیبشلمنٹ سے بغاوت ہی دراصل ملک سے غداری ہے۔

 وسعت اللہ خان کے مطابق بے نظیر بھٹو بادلِ نخواستہ دو بار وزیرِ اعظم تو رہیں مگر حساس قومی اداروں کی نگاہ میں سکیورٹی رسک ہی رہیں۔ الطاف حسین غدار اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے سے ایک دن پہلے تک بادشاہ گروں کی آنکھوں کا تارہ تھے۔ اسی طرح عمران خان بطور ’مسٹر کلین‘ بادشاہ گروں کے ’بلیو آئیڈ بوائے‘ قرار پائے مگر جب ان کے قلمی پودے نے اپنی جڑیں خود پکڑ لیں، خود کو واقعی وزیرِ اعظم سمجھنا شروع کر دیا اور ’نظام شمسی‘ کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو لامحالہ ملکی سالمیت کی دشمنی، اداروں اور عوام کو بغاوت پر اکسانے اور لاقانونیت کو ہوا دینے کے الزامات میں طرح طرح سے جکڑے گئے۔ اب ان کی جماعت کو ہی کالعدم قرار دینے کی کوشش کو ’فتنے‘ کا تشفی بخش حل سمجھا جا رہا ہے حالانکہ سپریم کورٹ کی نظر میں وہ فتنہ نہیں بلکہ ایک جائز سیاسی پارٹی ہے۔

 وسعت اللہ خان کے مطابق مسلم لیگ کا تو خیر سمجھ میں آتا ہے مگر پیپلز پارٹی بھی 56 برس میں بیسیوں سیاسی زخم کھانے کے باوجود اگر کچھ سیکھی تو یہ سیکھی؟ریوالونگ ڈور اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔

وسعت اللہ خان کے مطابق یہ وہی ضیا الحق کے غیض و غضب کا شکار پیپلزپارٹی ہے جو اپنے پہلے دورِ حکومت میں فروری 1975 میں صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کی بم دھماکے میں ہلاکت کے 48 گھنٹے میں ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اس موت کی ذمہ دار نیشنل عوامی پارٹی ہے۔لہٰذا اس پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور قیادت کو حراست میں لے کر ملک دشمنی، بیرونی آلہ کاری اور غداری کی فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق کی۔یہ وہی نیشنل عوامی پارٹی تھی جسے عین پاکستان انڈیا جنگ کے دوران 27 نومبر 1971 کو یحییٰ حکومت نے ملک دشمن اور غدار کہہ کر کالعدم قرار دیا۔ بعد ازاں سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس پارٹی کو اقتدار سنبھالتے ہی بحال کر دیا اور بلوچستان اور سرحد میں اس پارٹی کی حکومت بنی۔

وسعت اللہ خان کے مطابق نو ماہ بعد دونوں صوبائی حکومتوں کو ملکی سالمیت بچانے کے نام پر برطرف کر دیا گیا۔ تین برس بعد نیشنل عوامی پارٹی دوبارہ غدار قرار پا کر کالعدم قرار پائی۔ حالانکہ نیپ کے سربراہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔ ان کی جماعت نے 1973 کے آئین کی توثیق بھی کی پھر بھی غدار ٹھہری۔کالعدم نیپ نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے جنم لیا ۔اس نے مارچ 1977 کے انتخابات میں قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا حصہ بھی بنی۔بھٹو دور میں کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان سمیت متعدد رہنماؤں کو ملک دشمنی اور غداری کے الزام میں سزا دینے کے لیے حیدرآباد ٹریبونل قائم ہوا مگر ضیا الحق رجیم نے تختہ الٹنے کے فوراً بعد قیادت کو رہا کر دیا۔ پھر اسی رجیم نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر مسلمانی بھی چیک کی۔

وسعت اللہ خان کے مطابق 1983 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی  یعنی کالعدم عوامی نیشنل پارٹی پیپلز پارٹی کی قیادت میں ضیا مخالف ایم آر ڈی کا کچھ دنوں کے لیے حصہ بنی۔ تین برس بعد نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے متحرک ہوئی اور اگلے چالیس برس میں مختلف مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہمراہ حصہ دار بنی۔ اب اس کی حب الوطنی تا حکمِ ثانی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔جی ایم سیّد بھی 1950 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے بنیادی ارکان میں شامل رہے۔ پاکستان بننے سے پہلے سندھ مسلم لیگ میں ان سے بڑا کوئی محبِ وطن نہ تھا مگر نئے ملک میں ان کی سیاسی زندگی غداری و نیم غداری کا پنڈولم بنی جھولتی رہی۔ کبھی نظربندی نافذ ہو جاتی کبھی ختم ہو جاتی۔ کبھی پھول بھجوائے جاتے کبھی کیک۔ وفات کے بعد ان کا نام اس گیلری میں کندہ کر دیا گیا، جنھوں نے سندھ کے عوام کے سیاسی شعور کو ایک نئی سمت دی۔

وسعت اللہ خان کے مطابق عوامی لیگ کی کہانی زیادہ دلچسپ ہے۔ 1968 میں شیخ مجیب الرحمان سمیت عوامی لیگ کی قیادت کو ایوب حکومت نے انڈین ایجنٹ قرار دے کر اگر تلہ سازش کیس ٹریبونل قائم کیا۔ پھر اچانک غداری کا ٹیگ ہٹا لیا گیا۔ 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کو حصہ لینے کی اجازت ملی۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں سوائے دو کے تمام نشستیں جیت لیں۔یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو اگلا وزیرِ اعظم قرار دیا مگر چار ماہ بعد مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع ہوتے ہی عوامی لیگ کو پاکستان کا غدار قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ قیادت یا تو زیرِ زمین چلی گئی، فرار ہو گئی یا گرفتار ہو گئی۔ جیتی ہوئی 160 نشستوں میں سے 76 خالی قرار دے کر حکومت کی حلیف محبِ وطن جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں مگر متحدہ پاکستان کی اس آخری پارلیمنٹ کا اجلاس کبھی نہ ہو سکا۔

Back to top button