پاکستان کے مقدر میں صرف ٹھڈے، مکے اور لاتیں کیوں ہیں؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی ساری دنیا سے 74 برسوں سے ٹھڈے، مکے اور لاتیں کھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انسان نہیں بن رہے، کیوں، آخر کیوں؟ چلیں ہم انسان نہ بنیں شاید ہمارے نصیب ہی میں انسان بننا نہیں لکھا لیکن کیا ہم گدھے بھی نہیں بن سکتے؟ اتنی مار کھا کر تو کھوتے بھی سمجھ دار ہو جاتے ہیں، وقت نے امریکا اور طالبان دونوں کو سمجھا دیا لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں، کیا ہم لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں؟
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہم آجکل مسلسل امریکا کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرے اور تسلیم کرے کہ دنیا کی واحد سپر پاور بھی کسی ملک کو زبردستی کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی۔ ہمارا اصرار ہے کہ امریکا یہ بھی مانے کہ اگر کوئی قوم غلامی قبول نہ کرنا چاہے تو پھر اسے دنیا بھر کی فوجیں، دو ٹریلین ڈالر کے اخراجات، جدید ترین اسلحہ اور 20 سال کا قبضہ بھی زیرنگیں نہیں رکھ سکتا اور امریکا اور روس جیسی طاقتیں بھی پشاوری چپل اور رات کے باسی ٹکڑوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں۔ جاوید چودھری کہتے ہیں کہ ہم امریکا کو بے شک یہ مشورے دیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہئے۔
افغانستان صرف امریکا یا نیٹو کے منہ پر طمانچہ ثابت نہیں ہوا بلکہ یہ ہمارے لیے بھی لائف ٹائم لیسن ہے۔ قدرت نے ہمیں بھی اپنی 40 سال کی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کا موقع دیا ہے ہمیں بھی چاہئے ہم اپنے پچھلے 40 سالوں کا کھلے دل سے تجزیہ کریں اور یہ مان لیں کہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک لبرل ملک سمجھا جاتا تھا اور اقوام عالم میں قابل عزت تھا، تب ہماری یونیورسٹیوں میں غیرملکی طالب علموں کے لیے الگ ہاسٹل ہوتے تھے، یورپ اور امریکا ہمارے میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے پورے پورے بیچز اٹھا کر لے جاتے تھے اور یہ لوگ دو برس میں کروڑ پتی بن جاتے تھے۔
جاوید کہتے ہیں کہ پھر جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا تو بھی لوگ فوجی اقتدار کو پسند نہیں کرتے تھے۔ فوج میں بھی "الیکشن کرائیں اور واپس آئیں‘‘ کے مطالبات موجود تھے اور تب کے جنرلز ان خیالات سے گھبراتے تھے۔ تب شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آتے جاتے تھے اور مذہبی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ملک میں منشیات، اسلحہ کی نمائش، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی روایات نہیں تھیں۔ لوگ ایئر گنز بھی چھپا کر باہر لے جاتے تھے۔ سول بیورو کریسی تگڑی تھی۔ جنرل ضیاء الحق بھی حکومت چلانے کے لیے سول بیورو کریسی اور عدلیہ کا محتاج تھا، تب ملازمتیں زیادہ اور امیدوار کم ہوتے تھے ، سرکاری سکولوں کے بچے انگلش میڈیم بچوں سے زیادہ ترقی کرتے تھے ، دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں تھا، تب سفارت خانوں کی بیرونی دیواریں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ لوگ سیدھے سفارت کاروں کے دفتروں تک چلے جاتے تھے۔ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں رہتے تھے۔
لیکن بقول جاوید چودھری پھر ہم نے ایک غلطی کی۔ ہم جنرل ضیاء الحق کے ناجائز اقتدار کو جائز بنانے کے لیے افغانستان کے محاذ میں کود پڑے۔ امریکا نے جنرل ضیاء کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا اور ہم نے اس خوشی میں پورا ملک تنور میں ڈال دیا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا قوم کو جنرل ضیا کے اقتدار کی قیمت کلاشنکوف کلچر، ہیروئن، شیعہ سنی فسادات، مہاجر پنجابی نفرت، دہشت گردی،کرپشن، بیوروکریسی کے زوال اور پیسے کی دوڑ کی شکل میں ادا کرنا پڑی، جاوید چودھری کے مطابق آپ 1980 کے پاکستان اور 1990کے پاکستان کا تجزیہ کر لیں، آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا ، ملک صرف دس برسوں میں ہر شعبے میں زوال کے گڑھے میں گر گیا ، ہم اگر اس قربانی کے بعد بھی افغانوں کا دل جیت لیتے تو بھی غنیمت ہوتا لیکن آپ بدقسمتی دیکھئے کہ 50 لاکھ مہاجرین کی خدمت اور پرورش کے باوجود افغان ہم سے شدید نفرت کرتے تھے اور آج بھی ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اچھا ہوتا ہم اگر اس تجربے کے بعد بھی سنبھل جاتے۔ ہم یہ فیصلہ کر لیتے کہ ہم آئندہ چند لوگوں کے اقتدار کے لیے ملک قربان نہیں کریں گے لیکن ہم نے مشرف دور میں 2001 کے دوران ایک بار پھر ماضی کی غلطی دہرائی اور اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ مجھے جنرل شاہد عزیز نے بتایا تھا نائن الیون کے بعد جب کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو فون کر کے سات ذلت آمیز شرائط پیش کیں تو مشرف کے ساتھیوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ ہم نے نصف درجن لوگوں کے اقتدار کے لیے 2001 میں جتنی بڑی اور سنگین غلطیاں کیں ان کی قبریں آج بھی زندہ ہیں۔ 83 ہزار سیکیورٹی اہلکار اور سویلین جانوں سے گزر گئے ، تحریک طالبان پاکستان بنی اور اس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ملک کو 200 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ، مذہبی منافرت اتنی بڑھ گئی کہ آج ہم موبائل کے سگنل کی بندش اور کرفیو کے بغیر محرم اور بارہ ربیع الاول نہیں گزار سکتے۔
کراچی خوف اور دہشت کا قبرستان بن گیا۔ سوات ، فاٹا اور نارتھ وزیرستان ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے پھسلتے بچے، ہماری پوری ٹورزم انڈسٹری تباہ ہو گئی۔ سفارت خانے مورچے بن گئے، ایسے میں ہم اگر زندہ قوم ہوتے تو یہ ضرور سوچتے کہ ہمیں آخر اس قربانی کا کیا فائدہ ہوا؟ ہمیں مالیاتی پابندیوں‘ 429 ڈرون حملوں، ڈو مور، تجارتی کوٹوں اور ’’یہ لوگ پیسوں کے لیے ماں بھی بیچ سکتے ہیں‘‘ جیسے طعنوں کے سوا کیا ملا؟
بقول جاوید چودھری ہم نے صرف ایک شخص کے اقتدار کے لیے پورے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ہم آج آئی ایم ایف کے جبڑے تلے بھی ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی چکی میں بھی پس رہے ہیں۔ ہم اگر ان قربانیوں کے بعد بھی امریکا اورافغانستان کا دل جیت لیتے تو بھی بڑی بات ہوتی لیکن آج امریکا کی ’’محبت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ جوبائیڈن نے افغان انخلاء کے دوران بھی ہمارے وزیراعظم کو فون نہیں کیا جبکہ افغانوں نے بھارت اور را کو بلا کر ہماری مغربی سرحدوں پر لا بٹھا دیا تھا اور بھارت 15 سال فاٹا اور بلوچستان میں ’’اینٹی پاکستان‘‘ آپریشن کرتا رہا۔ آج افغانی بھی ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ طالبان کے دلوں میں بھی تلخیاں موجود ہیں اور ہم جن ملکوں کی تابعداری میں مرتے رہے وہ بھی ہم سے ناراض ہیں۔ تو سوال یہ نہیں کہ ہم نے پھر کیا پایا؟ ہم اگر زندہ قوم ہیں تو پھر ہمیں 1980 اور 2001 کی دونوں خوفناک غلطیوں کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ ہم نے تاریخ کے دونوں اہم مواقع پر اپنے فیصلے چند لوگوں کے ہاتھ میں دے دیئے تھے جنہوں نے دونوں مرتبہ قوم کو اپنے ذاتی اقتدار کے عوض فروخت کر دیا جس کے بعد پاکستانی قوم ایک قوم نہیں رہی بلکہ عبرت کا نشان بن گئی۔
جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ آج اگر طالبان اپنی اصلاح کر رہے ہیں اور خود کو وقت کے مطابق ڈھال رہے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم ایک بار بیٹھ کر اداروں کے درمیان موجود عدم اعتماد کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟ ہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اکٹھا کیوں نہیں بٹھاتے اور ہم ایک ہی بار سسٹم کی خرابیاں دور کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا ملک میں رول آف لاء نہیں ہونا چاہئے؟ کیا الیکٹورل سسٹم فول پروف اور قابل اعتماد نہیں ہونا چاہئے؟ کیا اہم پوزیشنوں پر اہل لوگوں کو نہیں ہونا چاہئے؟ کیا ملک کی معاشی پالیسیاں پچاس سال کے لیے فکس نہیں ہونی چاہئیں؟ کیا بھرتی اور ترقی کا سسٹم میرٹ پر نہیں ہونا چاہئے؟ کیا پالیسیوں میں استحکام نہیں ہونا چاہئے اور کیا ہمیں ایک ہی بار یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہئے کہ ہم آج سے کسی ملک میں مداخلت نہیں کریں گے اور اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کر لیں گے؟ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟

Back to top button