غیرقانونی افغانیوں کی ملک بدری،گنڈاپورحکومت تعاون سےانکاری

پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو دی گئی ڈیڈ لائن کو دو ہفتے گزرنے کے باوجود افغان شہریوں کی ملک بدری سست روی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور متعلقہ حکام بلند وبانگ دعووں کے باوجود افغان شہریوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ افغان شہریوں کی وطن واپسی کی حکومتی ڈیڈلائن رواں ماہ کے آغاز میں ہی ختم ہو چکی تھی۔ تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود متعدد خاندان تاحال روپوش ہیں اور افغانستان واپس جانے سے انکاری ہیں۔ جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس وقت افغان خاندانوں کی واپسی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مقامی افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے ابھی تک متعلقہ ادارے اپنے مشن میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

تاہم مبصرین کے مطابق حکومتی کوششوں کے بعد رواں برس کے دوران لگ بھگ 30 لاکھ افغانوں کی وطن واپسی متوقع ہے جن میں سے لگ بھگ ایک تہائی افغان شہری خیبر پختونخوا میں قیام پذیر ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف ان افغانوں کے ہیں جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ یا پروف آف رجسٹریشن موجود ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس قسم کی دستاویزات کے بغیر کتنے افغان شہری پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔

مبصرین کامزید کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے وہیں دوسری جانب وفاق کے برعکس صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت افغانوں کو بے دخل کرنے کے معاملے میں کسی قدر تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کا دشوار گزار پہاڑی سرحدی علاقہ، ملک میں عسکری گروہوں کی سرگرمیاں اور فرقہ وارانہ لڑائیاں مرکزی حکومت کی غیرملکیوں بالخصوص افغانوں کو نکالنے کی مہم کے لیے چیلنج بن رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کیلئے افغانوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا ناممکن ہے کیونکہ وہ سرحدی باڑ نصب ہونے کے باوجود غیرقانونی راستوں یا نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر کئی گاؤں ایسے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ہیں۔ اور گزشتہ تین چار دہائیوں سے انھیں راستوں سے دونوں ممالک کے باشندے مسلسل آر پار آ جا رہے ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق افغان مہاجرین کی ملک بدری میں سست روی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا چونکہ افغانستان کے ساتھ متصل ہے اور اس کے افغانستان کے ساتھ صدیوں پرانے نسلی، لسانی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ افغانوں کی فطری منزل بن جاتا ہے۔اسی وجہ سے سنہ 1980 کے بعد سے افغانوں کی بہت بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں مقیم ہے۔ ایسے افغان بھی کم نہیں ہیں جن کے پاکستانی شہریوں کے ساتھ ازدواجی بندھن قائم ہیں۔ عوامی رد عمل سے بچنے کیلئے گنڈاپور سرکار افغانوں کی بے دخلی میں مکمل تعاون سے انکاری ہے۔ اسی لئے افغانستان بارے وفاقی پالیسی پر عمل درآمد مجموعی طور پر سست روی کا شکار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت کئی وجوہات کی بناء پر افغانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ جہاں افغان شہریوں اور ان کی روایات اور ثقافت ایک جیسی ہیں وہیں جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنے دور حکومت میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ زور زبردستی کے رویے کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔‘ اسی لئے گنڈاپور سرکار بھی اس حوالے سے جارحانہ حکمت عملی اپنانے سے انکاری ہے۔ تاہم بعض دیگر مبصرین کے بقول اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں اٖفغان پناہ گزینوں کے خلاف چھاپے تو مارے جا رہے ہیں لیکن افغان باشندوں کی بے دخلی کے عمل میں سست روی کی ایک وجہ ’ وفاقی حکومت کی پالیسی پر زیادہ جارحانہ عمل درآمد‘ کی کمی ہے۔ان کے مطابق اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار کم ہونے کہ ایک وجہ حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیموں، امدادی ایجنسیوں اور افغان طالبان کی حکومت کا دباؤ بھی ہے۔تاہم اس کے باوجود بھی اپریل کے اوائل سے اب تک لگ بھگ 35 ہزار افغان پناہ گزین پاکستان چھوڑ کر طورخم بارڑ کے راستے واپس جا چکے ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق افغان مہاجرین کی اپنے واپسی صوبے کی معاشی حالات پر بھی اثر انداز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ خیبرپختونخوا کے کئی شہروں سے بڑے افغان تاجروں کی واپسی کے بعد نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو گئی ہے۔ کیونکہ افغان تاجروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے کاروبار شروع کر رکھے تھے۔ جس میں قالین اور کارپٹ کی بڑی دکانوں اور مارکیٹوں سمیت ہوٹل، ٹیلرنگ، ملبوسات، جوتوں کی دکانوں کے علاوہ مختلف اشیائے خورونوش کی دکانیں بھی شامل تھیں۔ ایک ایک دکان سے پانچ سے دس افراد کا روزگار وابستہ تھا۔ اب یہ افرادگھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ جبکہ بڑے کاروباری مراکز میں درجنوں ملازمین کے گھروں کا چولہے بھی ٹھنڈے ہوگئے ہیں جبکہ افغان باورچیوں کی ملک بدری کے بعد خیبر پختونخوا کے ہوٹلوں میں افغان کاریگروں کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افغان کاریگر کم اجرت پر بھی کام کر رہے تھے۔ اب ان کے واپس جانے کے بعد پاکستانی کاریگروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ذرائع کے مطابق ان مقامی کاریگروں نے اجرت بھی زیادہ مانگنا شروع کر دی ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ گھروں کی تعمیر میں دیہاڑی دار افغان مزدور آٹھ گھنٹے کے 1000 روپے تک وصول کر رہا تھا۔ جبکہ پاکستانی محنت کش ایک ہزار کے بجائے 1500 روپے کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔ اسی طرح افغان مستری جو گھروں کی تعمیر اور نقشہ جات وغیرہ پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے، وہ آٹھ گھنٹے کی اجرت کے 2 ہزار روپے وصول کرتے تھے۔ جبکہ پاکستانی مستری، کاریگر اور استاد آٹھ گھنٹوں کے 3 ہزار ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ جبکہ ٹھیکے پر کام لینے کے اس سے بھی ڈبل پیسے وصول کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقامی ٹھیکیدار پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پشاور سمیت صوبہ بھر میں لوگ تعمیراتی کام کا آغاز کرتے ہیں۔ چونکہ اس موسم میں دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اور شدید دھوپ کی وجہ سے گھروں سمیت دیگر عمارتوں کا مٹیریل بھی جلد تیار ہو جاتا ہے، لوگ زیادہ کام کرواتے ہیں۔ تاہم افغان کاریگروں، مستریوں، دیہاڑی دار مزدوروں کی واپسی کے بعد پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں دیہاڑی دار مزدوری کی کمی کا بھی سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں اور اسی کمی کے سبب اجرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 

Back to top button