طالبان حکومت کی تقریب حلف برداری کیوں نہ ہوئی؟

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جب یہ اعلان کیا کہ اب 11 ستمبر کو کابل میں نئی افغان حکومت کی جانب سے حلف برداری کی کوئی تقریب نہیں ہو گی، تو اکثر افراد کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریب سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نہیں ہو رہی اور طالبان کو افغان عوام کی حفاظت کی خاطر حلف برداری کی تقریب ملتوی کرنا پڑی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل طالبان نے نائن الیون سانحے کہ بیسویں برسی کے موقع پر 11 ستمبر کو نئی کابینہ کی تقریبِ حلف برداری منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے نئی حکومت کی تقریب حلف برداری اس لیے منسوخ کی گئی کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے سفیروں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ روس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اُن کا وفد طالبان حکومت کی حلف برداری میں شرکت نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر طالبان اپنی نئی حکومت میں تمام حلقوں کو شامل کرتے ہیں تو روس اُن کی حکومت کو تسلیم کریں گے بلکہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی کریں گے۔
ادھر اسلام آباد میں پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دو دن قبل طالبان حکومت کی حلف برداری کے بارے میں کہا تھا کہ جب دعوت آئے گی تو پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ شرکت کرنی چاہیے یا نہیں۔
بی بی سی کے مطابق طالبان ذرائع بظاہر حلف برداری کی تقریب کے ملتوی ہونے کی وجہ سکیورٹی وجوہات بتا رہے ہیں لیکن بعض ذرائع پھر بھی یہ دعویٰ کر رہے کہ دیگر ملکوں کے نمائندوں کی جانب سے شرکت نہ کرنے کی وجہ سے یہ تقریب ملتوی کرنا پڑی۔ ابھی تک باضابطہ طور پر صرف روس کی جانب سے ہی اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کا اعلان سامنے آیا لیکن طالبان صفوں میں قریبی ذرائع کے مطابق طالبان کی نئی حکومت میں صرف اور صرف مولویوں کی موجودگی اور دیگر اقوام کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی ملک نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت پر آمادگی ظاہر نہ کی اور اسی وجہ سے یہ تقریب ملتوی کرنا پڑی۔ اس سے پہلے طالبان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اُن کے رہبر ملا ہبت اللہ اخونزادہ جلد ہی منظر عام پر آئیں گے اور بیشتر تجزیہ کاروں کو یہ یقین تھا کہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ اور دیگر طالبان رہنما جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں، اس تقریب میں ہی نظر آ جائیں گے لیکن تقریب حلف برداری کے ملتوی ہونے کی وجہ سے اب یہ بھی واضح نہیں کہ کیا یہ رہنما کبھی منظر عام پر آئیں گے بھی یا نہیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق کچھ روز قبل سکیورٹی الرٹ جاری ہونے کی وجہ سے حلف برداری کی تقریب ملتوی کرنے کے بعد ان کے رہبر ملا ہبت اللہ اخونزادہ نے تمام وزیروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں حاضر ہوں اور کام شروع کیا جائے۔طالبان ترجمانوں کے مطابق وزارت دفاع، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور کئی دیگر وزارتوں میں کام کا آغاز ہو چکا ہے اور سنیچر کو افغان صدارتی محل میں عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے ایک مختصر تقریب میں طالبان کا پرچم لہرایا۔طالبان کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ارگ پر طالبان کا پرچم لہراتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
یاد رہے کہ تقریب حلف برداری منسوخ کرنے کے بعد افغان صدارتی محل میں پرچم کُشائی کی ایک مختصر تقریب ہوئی جس میں انتہائی مخصوص مہمانوں نے شرکت کی۔ تقریب میں شریک ایک طالبان نے بتایا کہ اس میں شرکت کرنے والے سارے مہمان ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی اجازت سے آئے تھے اور اُن کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکتا تھا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر طالبان کے کئی حمایتی اکاؤنٹس کی جانب سے صدارتی محل کے مینیو پر بھی بحث ہوئی کہ انتہائی سادگی سے لنچ کا اہتمام کیا گیا اور فضول خرچی نہیں کی گئی۔اس تقریب میں موجود ایک طالبان رہنما وحید اللہ ہاشمی کے مطابق مینیو میں بھنڈی، لوبیا، چاول اور لسی شامل تھی اور ملا محمد حسن اخوند نے بھی مہمانوں کے ساتھ یہی کھانا کھایا۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر بعض افغانوں نے اس مینو پر بھی تنقید کی کہ عام افغانوں کو خوراک نہیں ملتی اور ارگ میں تین یا چار قسم کی ڈشز موجود تھیں۔