سوات میں قتل ہونے والا صحافی خاندان کا 14واں مقتول ہے

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقہ مٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے صحافی جاوید اللہ خان اپنے خاندان کے چودھویں فرد ہیں جنہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ اداروں اور پولیس نے ان سے کہا ہے کہ اپنی حفاظت کا کچھ انتظام کرلیں۔
صحافی جاوید اللہ خان کے قتل کے بعد ان کے قاتلوں کی گرفتاری کےلئے سرچ آپریشن دوسرے روز بھی جاری رہا۔ پولیس اور پاک فوج کی جانب سے مشترکہ سرچ آپریشن کے دوران شکردرہ اور دیگر نواحی علاقوں میں گھر گھر تلاشی کا عمل جاری ہے جب کہ مختلف مقامات پر ناکہ بندیاں بھی کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
جاوید اللہ خان کا تعلق سوات کے علاقے شکردرہ کے یوسفزئی قبیلے سے ہے۔ ان کا تعلق اس علاقے سے ہے جس کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں سوات طالبان کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے سوات سے تعلق رکھنے والے اس با رسوخ خاندان کے 13 افراد کو گزشتہ سولہ برس میں شدت پسندوں نے حملے کرکے قتل کیا ہے۔
ڈی ایس پی مٹہ سوات محمد شوکت کا کہناہے کہ ’جاوید اللہ خان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ اس خاندان کے پہلے بھی کئی افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جاوید اللہ خان امن کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔‘ پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ ان کے بقول پولیس کو کچھ شواہد بھی ملے ہیں۔
پولیس کے مطابق جاوید اللہ خان دریائے سوات کے کنارے شکردرہ میں اپنے کھیتوں سے گھر واپس جارہے تھے کہ ان کو دو نامعلوم افراد نے کاڑکوٹوں کے مقام پر ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس سے جاوید اللہ موقع ہی پرجاں بحق ہوگئے۔ جاوید اللہ خان کی سیکورٹی پر مامور پولیس سیکورٹی گارڈ رحیم اللہ خان نے بھی جوابی فائرنگ کی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان روڈ شاہی کی طرف فرار ہوئے۔ جہاں پر انہوں نے ایک گاڑی کو اسلحے کی نوک پر روکا اور اس پر بیٹھ کر پہاڑ کی طرف فرار ہوگے۔ جاوید اللہ خان کے چچا زاد بھائی ڈاکٹر محمد افتخار خان کے مطابق جاوید اللہ خان سوات میں آپریشن کے دوران فوج کے ساتھ مل کر کارروائیوں میں حصہ لیتے تھے۔ وہ نہ صرف اپنے گھر کے دروازے فوج کےلیے کھول دیتے تھے بلکہ لوگوں سے بھی کہتے تھے کہ فوج کا ساتھ دیں۔ فوج کے اہلکار ان کی تعریف کرتے تھے اور ان کو اپنا میجر قرار دیتے تھے۔ ڈاکٹر محمد افتخار خان کے مطابق ان کے والد محمد اقبال خان بھی شدت پسندی کی ایسی ہی کارروائی میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ’اس موقعے پر سیکورٹی اہلکاروں نے میرے والد محمد اقبال خان کی بہادری کے اعتراف میں ہمارے خاندان کو بہادری کا نشان کلاشنکوف دی تھی۔ یہ کلاشنکوف فوج کے افسران ہی کی خواہش پرجاوید اللہ خان نے ان سے وصول کی تھی۔
سوات پریس کلب کے جنرل سیکرٹری سعید الرحمن نے بتایا کہ جاوید اللہ خان کچھ عرصہ قبل ہی صحافت سے منسلک ہوئے ہیں۔ چند دن قبل ہی انھیں روزنامہ اوصاف اسلام آباد کا سوات سے بیورو چیف مقرر کیا گیا ہے جب کہ اس سے قبل وہ مختلف بین الاقوامی اداروں کےلیے فری لائنس رپورٹنگ بھی کرتے رہے تھے۔
سوات پریس کلب کے جنرل سیکرٹری سعید الرحمن نے بتایا کہ قتل سے دو روز قبل جاوید اللہ خان کے ساتھ ان کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے دوران ہنستا مسکراتا جاوید اللہ خان کچھ پریشان تھا۔ جاوید اللہ خان نے مجھے اور میرے ساتھ موجود سوات کے دیگر صحافیوں کو بتایا تھا کہ چند دن قبل ہی انھیں اور ان کے خاندان والوں کو اداروں اور پولیس نے اطلاع دی ہے کہ کچھ شر پسند عناصر سوات میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کا رخ شکردرہ کے علاقے کی طرف ہے۔ جس وجہ سے شبہ ہے کہ اس کا ٹارگٹ وہ یا ان کے خاندان کا کوئی اور فرد بھی ہوسکتا ہے۔ سعید الرحمن کا کہنا تھا کہ اس موقع پر جاوید اللہ خان نے ہمیں بتایا تھا کہ اداروں اور پولیس نے ان سے کہا ہے کہ اپنی حفاظت کا کچھ انتظام کرلیں۔
ڈاکٹر محمد افتخار خان کے مطابق سب جانتے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی اداروں کا ساتھ دینے پر ان کا گھرانہ نشانے پر ہے۔ ہر واقعہ سے پہلے ہمیں اطلاع دی جاتی ہے۔ جاوید اللہ خان کے واقعہ سے پہلے بھی ہمیں اطلاع فراہم کی گئی تھی۔ سوات پولیس ذرائع کے مطابق انھوں نے بھی جاوید اللہ خان کو حملے سے متعلق آگاہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اپنی نقل و حرکت کو محدود رکھیں۔