صحافیوں کی گرفتاری کا قانون مسترد، احتجاج تیز
پنجاب اسمبلی کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے جانے والے ایک میڈیا مخالف بل کے خلاف صحافیوں کے احتجاج میں تیزی آ گئی ہے اور انہوں نے اس قانون کو واپس لیے جانے تک پنجاب اسمبلی کی کارروائی کور نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بل کے تحت کسی بھی خبر سے کسی رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر متعلقہ صحافی کو نہ صرف قید کی سزا دی جا سکے گی بلکہ اسے بھاری جرمانہ بھی کیا جا سکے گا جسکا اختیار سپیکر کے پاس ہو گا۔ یعنی اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی نے سزا دینے کے عدالتی اختیارات بھی حاصل کر لئے ہیں۔ تاہم لاہور کی صحافی برادری نے اس قانون کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے احتجاجی تحریک شروع کردی ہے اور وہ روزانہ پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ احتجاجی صحافیوں کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ بل آزادیٔ اظہار رائے اور آزادیٔ صحافت سلب کرنے کے مترادف ہے لہذٰا اسے فوری طور پر واپس لیا جائے۔ اس انوکھے قانون کو پنجاب اسمبلی ممبرز تحفظ استحقاق ترمیمی بل کا نام دیا گیا ہے جو کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کیا گیا تھا۔
احتجاجی صحافیوں نے بزدار حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل دراصل حکومت کے ایما پر پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے پیش کیا جسے بغیر کسی بحث کے عجلت میں منظور بھی کر لیا گیا۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی ہیں جو اپنی جماعت کی جانب سے پیش کیے گئے اِس بل سے لا علم تھے۔ بل پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے کسی نے اعتراض نہیں کیا گیا۔ بل کو اسمبلی اجلاس میں ایجنڈے پر لائے بغیر ہی منظور کر لیا گیا۔
اس نئے قانون کے مطابق اسپیکر اسمبلی سے متعلق ایسی خبر دینا جس سے اُن کی ذات سے متعلق منفی پیغام یا تعصب اُجاگر ہو، قابلِ سزا جرم تصور ہو گا جس پر خبر دینے والے صحافی کو تین ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی۔ اِسی طرح نئے قانون کے مطابق اسپیکر اسمبلی کی جانب سے کارروائی حذف کیے جانے کے باوجود اگر اس کی اشاعت کی جاتی ہے تو وہ قابل سزا جرم تصور ہو گا۔دستاویزات کے مطابق اگر کوئی شخص اسمبلی کی کارروائی سے متعلق جان بوجھ کر غلط بات چھاپتا یا رپورٹ کرتا ہے تو اُسے تین ماہ قید یا 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ اِسی طرح اگرکوئی شخص کسی ذیلی کمیٹی کی کارروائی سے متعلق کوئی ایسی بات چھاپتا ہے جو درست نہیں تو چھاپنے والے شخص کو بھی تین ماہ قید یا 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اِسی طرح نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک اسمبلی کی کارروائی سرکاری طور پر اسمبلی گزٹ میں چھپ نہیں جاتی، اسے چھاپنا بھی قابلِ سزا جرم ہو گا جس کی سزا تین ماہ قید ہو گی۔ قانون کے مطابق اگر کسی رکنِ اسمبلی نے محسوس کیا کہ کسی لفظ سے اُس کی توہین ہوئی ہے تو وہ بھی قابل سزا ہو گا۔نئے قانون میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کسی رکنِ اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کیا گیا تو اسپیکر پنجاب اسمبلی ایسا کرنے والے شخص کی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔
نئے قوانین کے مطابق تمام سزاؤں میں کمی یا اضافہ کا اختیار اسپیکر اسمبلی کی صوابدید ہو گا۔ بظاہر اس قانون کو بنوانے اور پاس کروانے میں مرکزی کردار اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی اور صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے ادا کیا۔ اس قانون میں شامل کی جانے والی سزاؤں میں سے چھ ایسی ہیں جو براہ راست صحافت سے متعلق ہیں۔ پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے جنرل سیکرٹری عباس نقوی کہتے ہیں کہ یہ بل پرائیویٹ ممبرز ڈے والے دن پیش کیا گیا تھا۔ ویسے بھی پچھلے کافی عرصہ سے تمام صحافیوں کا پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں داخلہ ممنوع ہے اور اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے آئے روز صحافیوں پر نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
اس معاملے پر سینئر صحافی خالد قیوم نے کہا کہ نئے قوانین سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے پنجاب اسمبلی سے متعلق ہر خبر اسپیکر کی مرضی سے چھاپی جانی چاہئے۔ اُن کے مطابق اگر اسپیکر پنجاب اسمبلی، اسمبلی سے متعلق کوئی خبر یا کارروائی کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو چھاپنے سے روک دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ ایسا کرنے کا پابند ہو گا۔ صدر لاہور پریس کلب پر ارشد نصاری کے مطابق گورنر پنجاب سرور نے صحافیوں کے احتجاج کے بعد اُنہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت نئے قانون میں کچھ تبدیلیاں ضرور کرے گے۔ اسی طرح اسپیکر سیکرٹیریٹ نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ بل میں سے کچھ متنازعہ شقوں کو واپس لے لیا جائے گا۔ تاہم سیکرٹری لاہور پریس کلب زاہد چوہدری کا کہنا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی ہمیشہ کی طرح ایک سیانے کوے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے میڈیا مخالف سخت ترین قانون اسمبلی سے پاس کروانے کے بعد اب اس میں سے چند شقیں نکالنے کا اشارہ دیا ہے تاکہ ان کا اصل مقصد بھی پورا ہو جائے اور صحافیوں پر احسان بھی جتا دیا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اس بل کو قانون بنانے کے لیے اس پر دستخط کر دیے تو ان کے خلاف بھی گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج ہو گا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب حکومت اس بل میں ترمیم کرتی ہے یا اسے مکمل طور پر واپس لے لیتی ہے۔