عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا فوکل پرسن کے گھر مبینہ چھاپہ
تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر مبینہ طور پر 11 افراد نے چھاپہ مار ہے۔
پی ٹی آئی کے پنجاب میں ڈیجیٹل میڈیا کے سابق فوکل پرسن اظہر مشوانی نے کہاکہ لاہور کے علاقے واپڈا ٹاؤن میں واقع ارسلان خالد کے گھر مبینہ چھاپہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد مارا گیا، جسے پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے رپورٹ کیا گیا۔
اظہر مشوانی کے مطابق سحری کے اوقات میں 11 افراد نے ارسلان خالد کے گھر پر دھاوا بولا اور ملزمان تمام تر فونز اور لیپ ٹاپس اپنے ساتھ لے گئے، ملزمان نے ان کی 80 سالہ والدہ سمیت اہل خانہ کو دھمکیاں بھی دیں۔انہوں نے کہا ڈاکٹر ارسلان خالد کوگزشتہ 4 ہفتوں سے ایسے افراد سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جو عوام کے آن لائن فیڈ بیک کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے آفیشل اکائونٹ سے ایک ٹوئٹ میں ایف آئی اے سے معاملے پر غور کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے سوشل میں پر کسی سے بدسلوکی کی نہ ہی کسی ادارے پر حملہ کیا ہے۔قبل ازیں اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ نہیں کر پارہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹ کیا کہ یہ متوقع چھاپہ تھا، تاہم ڈاکٹر ارسلان کو کہیں اور منتقل کردیا گیا تھا۔ ان کاکہنا تھا مجھے آپ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ ارسلان خالد محب وطن ہیں اور انہیں اسی ملک میں رہنا ہے، ہمیں توقع تھی کہ آپ ایسا ہی کریں گے تو گزشتہ رات میں نے ان سے کہا اور انہیں ان کے گھر سے کہیں اور منتقل کردیا، آپ نے جو موبائل اور لیپ ٹاپس لیے ہیں اس میں پیشہ ورانہ کام کے علاو کچھ نہیں ہے۔ واقعے کے مقدمے کے اندراج سے متعلق تاحال کوئی بات واضح نہیں ہوئی۔
پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر اسد عمر نے اسے ’قابل مذمت‘ اور ڈاکٹر ارسلان خالد کو ’قوم کا ایک اثاثہ‘ قرار دیا۔ سابق وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر ارسلان کے گھر میں چھاپے اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے کا سُن کر افسوس ہوا۔ سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یہ چھاپہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ تنقید کے لیے گہری عدم برداشت غصے کی طرف لے جاتی ہے، تاہم سوشل میڈیا پر بے ساختہ تنقید بغاوت کے برعکس ہے۔