فوج اور عمران خان کے مابین اب کسی ڈیل کا امکان کیوں نہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان سیاست دانوں کی بجائے جرنیلوں کیساتھ مذاکرات پر اس لیے مصر ہیں کہ ان کو اپنے 26 سالہ سیاسی کیریئر میں جو کچھ ملا ہے وہ جرنیلوں کی بارگاہِ خاص سے ہی ملا یے لہازا وہ ایرے غیرے سیاستدانوں سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ تاہم خان صاحب شاید بھول رہے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کے بعد سے ان پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
عرفان صدیقی اپنی تازہ تحریر میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی جانب سے عمران خان کو سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ججز کے علاوہ کچھ دانش ور بھی اسی طرح کے مشورے دے رہے ہیں، تاہم وہ بے لچک رویہ رکھنے والی پی۔ٹی۔آئی اور لچک دار سیاسی موقف رکھنے والی جماعتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ سیاسی رابطوں یا مذاکرات کے حوالے سے، پی۔ٹی۔آئی دو نکات پر یکسُوہے۔ پہلا یہ کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم۔کیو۔ایم سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف فوج سے بات کرے گی جو اُس کے خیال میں ’’اصل طاقت‘‘ ہے۔ اس ضمن میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی کو نامزد بھی کر دیا گیا ہے۔ اڈیالہ جیل میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ہم سیاستدانوں سے نہیں، وہاں بات کریں گے جہاں اصل طاقت موجود ہے۔ میں تو وزیراعظم شوکت عزیز سے نہیں، صرف جنرل مشرف کے نمائندوں سے بات کرتا تھا۔‘‘
عرفان صدیقی کے مطابق یہ جج صاحبان کے مشورے کا باضابطہ ردِّ عمل تھا جو پی۔ٹی۔آئی کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی ہے۔ خان صاحب نے برسوں قبل ایک بیانیے کا بیج بویا تھا کہ ’’زرداری اور نواز شریف دونوں کرپٹ ہیں۔ یہ چور اور ڈاکو ہیں انہوں نے باریاں لی ہوئی ہیں۔‘‘ خان صاحب کی پُشت پناہ ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے دِل وجان سے اِس بیج کی نگہداشت کی۔ یہاں تک کہ یہ اُن کے لئے ایک شجرِ ثمردار بن گیا۔ خان صاحب آج تک اسی کے شیریں پھل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُن کی 26 سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ جو کچھ ملے گا، جرنیلوں کی بارگاہِ خاص سے ملے گا۔ اِسی ’’فوج‘‘ کی اشیرباد سے انہوں نے حکومت بنائی، اسی کے زور پر پارلیمنٹ میں اپنے ارکان اور اتحادیوں کو قابو میں رکھا، اِسی کے زور پر اپنے سیاسی مخالفین کو غیظ وغضب کے کولہو میں پیلتے رہے۔ انتہا یہ کہ موصوف نے بطور وزیر اعظم پارلیمنٹ ہائوس کا ایک آراستہ کمرہ اُسی ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ایک اہلکار کے لئے وقف رکھا جو پارلیمان کی پوری کارروائی کنٹرول کرتا تھا۔ آج ’’حمودالرحمن کمیشن رپورٹ‘‘ کی دُہائی دینے والے یہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ’سائفر‘ کی تمام تر ذمہ داری جنرل باجوہ کے سر ڈالی گئی لیکن تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد خان نے اُسی جنرل باجوہ کے حضور پیش ہوکر عرضی گزاری کی تھی کہ ’’پی۔ڈی۔ایم کی حکومت ختم کردو۔ میں تمہیں تاحیات آرمی چیف بنادوں گا۔‘‘ تب کہاں تھی حمودالرحمن کمیشن رپورٹ؟ آج بھی وہ ایک ہاتھ میں یہ رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں اپنے سارے سیاسی اثاثے کی پوٹلی تھامے، اُسی دہلیز پہ بیٹھے، اُن زخموں کی چارہ گری مانگ رہے ہیں جو اُنہوں نے خود اپنے اَنگ اَنگ پر لگائے اور مسلسل لگا رہے ہیں۔ اُدھر سے دِلداری کا ہلکا سا اشارا بھی ملے تو وہ حمود رپورٹ کے پُرزے ہوا میں اُڑاتے براہِ راست یحیٰی خان کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے پہنچ جائیں گے۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مذاکرات کا پرچار کرنے والے نظرانداز کررہے ہیں کہ معاملات کے سدھار میں ایک بڑی ارکاوٹ 9 مئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِسے بھی معمول کا سیاسی احتجاج قرار دے کر بھلا دیاجائے۔ لیکن فوج اِس پر آمادہ نہیں۔خان صاحب کی دِلداری میں فوج کی حسّاسیت کو نظرانداز کر دینا انصاف نہیں۔ جزا وسزا کا بنیادی فلسفہ، محض مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا نہیں ہوتا، اصل مدعا اِس جرم کو روکنا اور اس کے ارتکاب کا ارادہ کرنے والے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اگر کسی بھی خوبصورت دلیل یا دلکش جواز پر 2023کے 9مئی پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی سرکش گروہ لوحِ تاریخ پر اپنی مرضی کا 9 مئی رقم کرسکتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ، اپنے عوام کی حد تک بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے خاصے حسّاس ہیں۔ لیکن 2011 میں برطانیہ اور 2021 میں امریکہ نے، قانون توڑنے والے فسادیوں کو سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے کڑی سزائیں دیں۔ مقصد یہ تھاکہ آئندہ کسی کو ایسی سرکشی کا حوصلہ نہ ہو۔
عرفان صدیقی کے مطابق ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ خان صاحب 9 مئی کے الائو کو بھڑکتا رکھنے میں ہی اپنی سیاسی بقا خیال کرتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل کا مشورہ اپنی جگہ لیکن خان صاحب نے چند ہی دِن پہلے، سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایک فتنہ ساماں تصویری ٹویٹ کے ذریعے، 9 مئی کے الائو پر منوں تیل ڈال دیا ہے۔ آگ بجھانے یا ٹھنڈی کرنے، ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر ڈالنے اور نظام کو مضبوط کرنے کو خان صاحب اپنی جماعت کے لئے پیام ِمرگ خیال کرتے ہیں۔ ان کا سوشل میڈیا مسلسل زہر میں بجھے تیروں کی بوچھاڑ کئے جارہا ہے اور وہ اُس سے محظوظ ہوتے ہوئے شاباش دے رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ پیدا کیاجارہا ہے کہ خان صاحب سے معاملات طے نہ کئے گئے تو ’’بحران‘‘ ایک ہلاکت آفریں طوفان میں بدل جائیگا جو خدانخواستہ پاکستان کو اُدھیڑ کر رَکھ دیگا۔ خان صاحب نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے کہ مجھ سے مُک مکا کرلو ورنہ ایک اور’’ سقوطِ ڈھاکہ‘‘ فصیلِ شہر سے لگا کھڑا ہے۔ اسی بے سروپا مفروضے پر ایمان لاتے ہوئے کچھ اہلِ دانش اپنی پروازِ تخیل کے زور پر تصوراتی قیامت سے ڈرا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ تمام ریاستی ادارے آئینی تقاضوں کے مطابق کام کررہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ خان صاحب کیلئے ملک کے کسی حصے میں اضطراب واحتجاج کی کوئی لہر نہیں۔ بحران صرف یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی خود اپنے ہاتھوں سے بُنے فولادی جال میں پھنس چکی ہے اور پَرلے درجے کی بے حکمتی کے سبب مسلسل پھنستی چلی جارہی ہے۔ خودشکنی کی آخری حدوں کوچھوتی اِس بے ہنری کا مداوا مشکل ہے۔ بس دعا ہی دی جا سکتی ہے۔