پنڈی بوائز کے ہوتے نواز لیگ کو اقتدار کیوں نہیں مل سکتا؟

‘
ماضی کے فوجی آمروں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں جب تک عمران خان کی حامی پنڈی کی اسٹیبلشمنٹ رخصت نہیں ہوتی، تب تک ملک میں سیاسی تبدیلی آنے کے امکانات خاصے کم ہیں۔ یاد رہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوششوں میں بڑی پیش رفت جنرل ضیا کی موت اور مشرف کی آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کی صورت میں سامنے آئی۔ دونوں صورتوں میں فوج کی پالیسی صرف کمان کی تبدیلی سے ہی ممکن ہوئی۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کو شہباز شریف کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ شاید اس مرتبہ تاریخ بدلنے جا رہی ہے کیونکہ اگر انہوں نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو مفاہمت پر قائل کرلیا تو یہی اسٹیبلشمنٹ کپتان کو سسٹم سے باہر کرکے اقتدار ایک بار پھر ن لیگ کے حوالے کرسکتی ہے۔ تاہم اکثر تجزیہ کاروں آج بھی یہی مانتے ہیں کہ اسلام آباد سے نکالی گئی جماعت تب تک واپس اقتدار میں نہیں آسکتی جب تک پنڈی بوائز تبدیل نہ ہوجائیں اور ابھی اس بات کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس وقت عمران خان ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور کچھ اس قسم کی افواہیں ہیں کہ شہباز شریف جو مسلم لیگ (ن) کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے ہی والے ہیں۔ دوسری جانب یہ تاثر عام ہے کہ تحریک انصاف حکومت کامیابی سے چلانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنے مفاہمت پسند سربراہ کی قیادت میں اپنے بیانیے میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بگڑے ہوئے تعلقات درست کر سکے تا کہ انہیں پنجاب یا مرکز میں اقتدار میں آنے دیا جائے اور ملکی حالات درست کیے جا سکیں۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان افواہیں میں کوئی صداقت بھی ہے یا نہیں۔ لیکن سوال یہنہے کہ کیا جن لوگوں نے نواز حکومت کی بے دخلی کی حکمتِ عملی تیار کی تھی وہ اس کی وجوہات کو بھلا کر بے دخل کیے جانے والوں کو دوبارہ اقتدار سونپ دیں گے؟
اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی والا پاکستان نہیں ہے۔ طاقت کا توازن اب تبدیل ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت پریشانی کا باعث بن رہے ہیں اور کسی بھی بُرے فیصلے کو مذید برداشت کرنا اب مشکل ہوگیا ہے۔ شاید اب حالات اتنے تبدیل ہوچکے ہیں کہ افراد کی بھی وہ حیثیت نہیں رہی جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ جب پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے والے جنرل ضیا کی جانب سے 1985ء میں منعقدہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس کا فائدہ جنرل ضیا کو ہی ہوا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے بننے والی حکومت بلکہ پارلیمنٹ بھی ایسی تھی جو پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حامیوں سے پاک تھی۔1988ء میں ہونے والے انتخابات تک پیپلز پارٹی اپنی غلطی سے سبق سیکھ چکی تھی اور دوسری جانب اسے یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ جنرل ضیا کا کنٹرول اب ختم ہوچکا تھا۔ غلام اسحٰق خان اور اسلم بیگ، جن کی وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ہاتھوں بطور وائس چیف آف آرمی اسٹاف تقرری پر جنرل ضیا بہت زیادہ خوش نہیں تھے، انہوں نے انتخابات کو شیڈول کے مطابق منعقد کروانے کا فیصلہ کیا اور یوں پیپلز پارٹی کی جیت کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔
اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر جنرل ضیا حیات ہوتے تو الیکشن کس طرح کے ہونے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ ہوتی یا پھر بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ہی منتقل نہ ہوتا۔ تاہم انتخابات کے انعقاد سے متعلق پختہ ارادے کے باوجود مقتدر ادارے میں پیپلز پارٹی سے نفرت موجود تھی جس کے سبب اسلم بیگ نے آئی جے آئی بنوائی تاکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ انہوں نے غلام اسحٰق خان کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا کہ محترمہ خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں مداخلت نہ کریں۔ پیپلز پارٹی پر اپنے عدم اعتماد کے باوجود غلام اسحٰق خان اور جنرل اسلم بیگ اتنے تذبذب کا شکار نہیں تھے جتنا جنرل ضیا ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی جنرل ضیا کے برخلاف ان دونوں کے پیپلز پارٹی پر عدم اعتماد کی وجہ ذاتی نہیں تھی۔ آخر جنرل ضیا کو بھٹو کی پھانسی کے ذمے دار شخص کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سادہ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا کی وفات کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کا اقتدار کی جانب سفر شروع ہوگیا تھا۔
اگلی دہائی میں ایک اور آمر اور فوجی بغاوت نظر آئی۔ اس بار جنرل مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا اور 2002ء میں عام انتخابات کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سے انہوں نے کئی مرتبہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کیے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا مگر معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھے۔ جلد ہی پیپلزپارٹی چھوڑ کر الگ دھڑا پیٹریاٹس بنانے والے مشرف سے آملے اور انہوں نے اپنی حکومت بنالی۔ تاہم چونکہ مشرف کے لیے ن لیگ والوں سے بات چیت کرنا مشکل تھا اس لئے پیپلزپارٹی کے ساتھ بیک ڈور بات جیت اور رابطے جاری رہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ 2007ء میں مشرف اور بے نظیر کے درمیان معاملات کی نسبت نواز شریف سے مشرف کی مخاصمت زیادہ ذاتی نوعیت کی تھی۔ نواز شریف نے مشرف کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن مشرف نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرکے قید کردیا اور پھر جلا وطن کردیا۔ بی بی شہید کے ساتھمشرف کے اس طرح کے کوئی معاملات نہیں رہے۔
گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی دفترِ خارجہ پہلی مرتبہ 2004ء میں بی بی سے رابطے میں آیا۔ ’مارک لیال گرانٹ مشرف کا یہ پیغام لے کر بے نظیر کے پاس دبئی گئے کہ ان کے شوہر کو جیل سے رہا کردیا جائے گا اور اب انہیں مشرف کے ساتھ کام کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ دوسری جانب بی بی بہت ہی محتاط تھیں لیکن پھر مطالبات کی فہرست کا بھی تبادلہ ہوا۔ 2007ء تک امریکی بھی اس کھیل میں کود پڑے اور اسی سال موسمِ گرما میں بی بی اور مشرف کی دبئی میں ملاقات ہوئی۔ اسی سال اکتوبر میں محترمہ وطن واپس آگئیں۔ ان مذاکرات کے حوالے سے کئی یادداشتیں لکھی جا چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مشرف 2002ء میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار تھے اور 2007ء میں جب مشرف بی بی کے ساتھ پاور شیئرنگ ڈیل کے حوالے سے بات جیت کر رہے تھے تو انہوں نے ستمبر میں نواز شریف کی واپسی کا پروگرام بھی خراب کردیا تھا۔
نواز شریف کو بے نظیر کی وطن واپسی کے بعد ہی واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ایسا بھی اس وقت ممکن ہوا جب جنرل مشرف پر بے حد دباؤ ڈالا گیا۔ واضح رہے کہ نواز شریف جنرل پرویزمشرف کے ریٹائر ہونے سے دو دن قبل ہی وطن واپس آئے۔ مشرف کی جگہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مشرف کی وہی حیثیت تھی جو بی بی کے لیے جنرل ضیا کی تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوششوں میں بڑی پیش رفت جنرل ضیا کی موت اور مشرف کی آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کی صورت میں سامنے آئی۔ دونوں صورتوں میں فوج کی پالیسی صرف کمان کی تبدیلی سے ہی ممکن ہوئی۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اسلام آباد سے نکالی گئی جماعت اس وقت تک واپس اقتدار میں نہیں آسکتی جب تک پنڈی کے طاقتور رہائشی تبدیل نہ ہوجائیں۔