کیا کپتان کو بلوچوں سے مذاکرات کی اجازت مل جائے گی؟


وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گوادر میں تقریر کے دوران بلوچستان میں برسرپیکار مزاحمت کاروں سے بات چیت کے امکان کے اظہار کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے گی یا کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کو ایسا کرنے پر راضی کر پائیں گے؟
یاد رہے کہ بلوچستان میں مزاحمت کاروں سے بات چیت کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں، لیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔ وجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی حکومت بلوچوں کے مطالبات پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ بلوچ قوم پرستوں کے عمومی مطالبات میں اپنے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ، صوبے کے وسائل، سمندری ساحل گوادر اور ترقیاتی کاموں میں حصہ داری، بلوچ قوم کو سٹیک ہولڈر تسلیم کرنا اور معدنیات والے علاقوں کے عوام کو حصہ دینے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مطالبات کبھی بھی منظور نہیں ہو پائے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ سابقہ ادوار میں یہ مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں وہ لوگ رکاوٹ بن جاتے ہیں جو حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’جو لوگ حکومت یا فوج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی جگہ کوئی اور لے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات نہ کیے جائیں، یہ دہشت گرد ہیں۔ اگر یہ لوگ آگئے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔‘
شہزادہ ذوالفقار نے مزید بتایا: کہ ظاہر ہے جو لوگ اس علاقے میں اثر ورسوخ رکھتے ہیں، مزاحمت کاروں کے آ جانے پر ان کی اجارہ داری تو ختم ہوجائےگی۔ وہ ان کی جگہ لے لیں گے لہازا ایسا ہونے نہیں دیا جا رہا۔ ذوالفقار کے مطابق: ’میری معلومات ہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے مزاحمت کاروں سے بات چیت کی کوشش پہلے بھی ہوئی ہے۔ اب یہی بات وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی سوچ رہے ہیں کہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ سویلین حکومت اس بات پر سنجیدہ ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے پر پاکستانی فوجی قیادت کا کیا موقف ہے۔
ماضی میں حکومت اور فوج کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اس صورت میں بلوچوں سے بات چیت کریں گے اگر کوئی پاکستان مخالف اور بلوچستان کی آزادی کی بات نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ہر چیز پر بات ہوسکتی ہے۔ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوجائے تو اس میں بلوچوں کے ساتھ زیادتی کے ازالے، وسائل، سمندری ساحل، ترقیاتی کاموں میں حصہ داری، بلوچ قوم کو سٹیک ہولڈر تسلیم کرنے اور معدنیات والے علاقوں کے عوام کو حصہ دینے پر مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں عمران خان کا مزاحمت کاروں سے بات کرنا ممکن ہے، لیکن اگر ان کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہو۔ انکا کہنا ہے کہ مذاکرات نہ صرف ملک سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں سے کیے جائیں بلکہ ان سے بھی کیے جائیں جو افغانستان میں موجود ہیں اور اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ تجزیہ۔کار کہتے ہیں کہ اگر مزاحمت کاروں سے مذاکرات سویلین حکومت کی سربراہی میں کیے جائیں تو ان کا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا سلسلہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں بھی شروع ہوا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مالک بلوچ نے بتایا کہ تب کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ نے ان سے کہا کہ ’آپ جائیں اور مذاکرات کریں۔‘انہوں نے بتایا: ’اس میٹنگ میں بڑے ذمہ دار لوگ موجود تھے، جن کا نام لینا یہاں مناسب نہیں ہے، یعنی ٹاپ کی سیاسی قیادت اور ٹاپ کی عسکری قیادت موجود تھی۔ میں نے کوشش کی۔ میں نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے براہم داغ بگتی سے ملا جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا نوابزادہ صاحب میں طاقتور آدمی نہیں ہوں۔ میں صرف آپ کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہوں اور آپ نے جو کچھ کہنا ہے، انکے سامنے کہنا ہے۔‘ ڈاکٹر مالک بلوچ کے بقول نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ہاں میں جواب دیا اور پھر وہ وہاں سے چلے آئے اور اپنی رپورٹ پیش کی۔ ’پھر ہم نے ایک ٹیم بنائی، جس میں میں اور جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ شامل تھے۔ ہم گئے اور دو دن مذاکرات کیے اور نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ہمیں بہت عزت دی۔ اس معاملے کے گواہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ ہیں۔‘
سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق: ’ان کے ایسے اجتماعی مطالبات تھے کہ علاقے میں سکول، ہسپتال اور بجلی، پانی ہونا چاہیے، جسے میں بحیثیت وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی حل کرسکتا تھا۔ ان سب کے باوجود بات چیت کو آگے نہیں چلایا گیا۔
دوسری جانب شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں: ’اگر فرض کریں کہ مذاکرات کی صورت میں براہمدغ بگٹی واپس آتے ہیں تو ان کو وہاں آزادانہ کام کرنے دینا ہوگا۔ وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘ انہوں نے کہا کہ اسی طرح ڈیرہ بگٹی میں جو بھی ترقیاتی کام ہوں گے ان میں انہیں شامل کرنا ہوگا۔ گیس کمپنی سے معاہدے ہیں، ان میں بھی ان کو شامل کرنا ہوگا۔ اسی طرح خان آف قلات سلیمان داؤد کے حوالے سے بھی معاملات کو طے کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم کے مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے بیان پر بلوچستان میں مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب عمران خان نے بھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ مذاکرات کس طرح ہوں گے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
انڈیپنڈنٹ اردو میں ہزار خان بلوچ کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ مزاحمت کار برسرپیکار ہیں، جو نہ صرف سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ فورسز پر بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان تنظیموں میں سب سے بڑی بلوچ لبریشن آرمی یا بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ ہیں جو بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین تھے۔ یہ تنظیم کوئٹہ، کراچی، خضدار، نوشکی، دالبندین، پنجگور، گوادر، حب ، قلات، سبی، کوہلو، تربت، مند، تمپ، زامران، بولان، کاہان، خاران، مستونگ، پسنی، مشکے، ہرنائی، شاہرگ، مچھ اور واشک میں سرگرم عمل ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ہیں، جن کا آبائی علاقہ مشکے ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان کے آواران، مشکے، پسنی، ضلع کیچ، پنجگور، حب، خضدار میں سرگرم ہے۔ بلوچ ریپبلیکن آرمی ( گلزار امام گروپ) کے سربراہ گلزار امام بلوچ ہیں۔ یہ تنظیم پنجگور، مند، تمپ، زامران، ضلع کیچ اور خاران میں سرگرم ہے۔ بلوچ ریپبلیکن آرمی (براہمداغ بگٹی گروپ) کے سربراہ براہمدغ بگٹی ہیں۔ یہ تنظیم ڈیرہ بگٹی، نصیرآباد، سوئی، تمپ اور زامران میں سرگرم ہے۔
یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے سربراہ مہران مری ہیں۔ یہ تنظیم اکثر مستونگ، تمپ، کاہان، کوہلو، سبی اور خاران میں کارروائیاں کرتی ہے۔ لشکر بلوچستان کے سربراہ جاوید مینگل ہیں۔ یہ تنظیم خضدار، وڈھ اور حب میں کارروائیاں کرتی ہے۔
بلوچ ریپبلیکن گارڈز کے سربراہ بختیار ڈومکی ہیں۔ یہ تنظیم ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، سبی، ڈھاڈر اور لہڑی میں سرگرم ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (آزاد گروپ ) کے سربراہ حربیار مری ہیں، جو اس وقت لندن میں ہیں۔ یہ تنظیم کوہلو، کاہان اور خاران میں سرگرم ہے۔
اس وقت بلوچستان میں پانچویں مزاحمت تحریک چل رہی ہے، جس میں شدت 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں شہادت کے بعد آئی، جس کے بعد سے لے کر اب تک اس میں کمی نہیں آ سکی اور نتیجہ یہ ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اس وقت جھلس رہا ہے۔

Back to top button