جنہیں طیش میں خوفِ خدا نہ رہا!

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
کافی عرصے سے روزانہ نت نئی باتیں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس حوالے سے تو ایک عجیب صورتحال سامنے آئی جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔9مئی کو جس طرح ہمارے دفاعی اداروں پر حملے کئے گئے ،شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی یہ کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یہ کام ایک سیاسی جماعت کے کارندوں نے کیا، بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی پی ٹی آئی کی حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جب ’اناللہ‘ ہوئی تو سینوں پر وہ تیر چلے کہ ہائے ہائے۔ اس کے بعد پکڑ دھکڑ ہوئی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی تو یہ ’’ریڈلائن‘‘ کراس ہوتے ہی غیظ وغضب کی ایک ایسی لہر آئی جو کسی پاکستانی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی ۔جماعت کے کارکنوں اور حا میوںکی بالواسطہ طور پر سوشل میڈیا پر ایسی خبریں اور تبصرے نظر آنا شروع ہو گئے کہ لگتا تھا حاکم بدہن پاکستان ٹوٹنے والا ہے کسی انگریزی اخبار کا یہ ’’جملہ‘‘ وائرل کیاگیا کہ پاکستان کی فاتحہ کے دن قریب آگئے ہیں۔ ہم سب لوگ ماضی میں دوسرے ملکوں کی خوشحالی کا موازنہ پاکستان کی پسماندگی کے حوالہ سے کرتے آئے ہیں لیکن اس مرتبہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی کامیابیوں کا تذکرہ ایسے کیاگیا کہ جیسےہم نے پاکستان بنا کر غلطی کی اور بنگلہ دیش نے الگ ہو کر اچھا کیا، ایک تصویری خاکہ بھی دیکھنے میں آیا جس میں گاندھی قائد اعظم سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے انڈیا سے الگ ہو کر کیا حاصل کیا بھوک اور پسماندگی جبکہ انڈیا ایک خوشحال ملک ہے تم نے انگریز سے نجات حاصل کرنے کی بات کی تھی اور اب ہر پاکستانی انگریزوں کے ملک میں جانا چاہتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہےصرف پاکستان نہیں انڈیا میں بھی ہر شخص کی خواہش انڈیا سے باہر سیٹل ہونے کی ہے چنانچہ بیرون ملک انڈین پاکستانیوں سے چار گنا زیادہ تعداد میں آباد ہیں مگر انڈیا اپنی شہریت چھوڑنے والوں کے پاسپورٹ کینسل کر دیتا ہے اور انہیں ویزا لیکر انڈیا آنا پڑتا ہے ۔
اور اگر آپ غربت کی بات کرتے ہیں تو عام انڈین آج بھی بدتر زندگی گزار رہا ہے کلکتہ اور بمبئی میں ہزاروں لوگ فٹ پاتھ پر پیدا ہوتے ہیں، فٹ پاتھ پر جوان ہوتے ہیں ایک فٹ پاتھ سے دوسرے فٹ پاتھ پر ان کی بارات جاتی ہے اور فٹ پاتھ پر ہی ان کی ارتھی اٹھتی ہے۔ میں نے دلی کے چاندنی چوک کے علاقے میں آدھی رات کو فٹ پاتھ پر قطار اندر قطار رکشےکھڑے دیکھے پتہ چلا کہ یہ غریب لوگ دوسرے قصبوں سے دہلی آئے ہیں اور یہاں سارا دن رکشہ چلانے کے بعد ر ات کو اس رکشہ میں سو جاتے ہیں اللہ جانے وہ نہانے اور رفع حاجت کیلئےکہاں جاتے ہوں گے۔ میں نے دہلی کے کناٹ پیلس میں، جو اس شہر کا سب سے پوش ایریا ہے، ایک مجبور شخص کو رفع حاجت کرتے دیکھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انڈیا معیشت اور ٹیکنالوجی میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے ہمیں اس پر رشک ضرور آنا چاہئے مگر اسے پاکستان پر طعنہ زنی اور اس کی بربادی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اس ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنا چاہئے، یہ نہیں کہ جس شخص نے پاکستانی عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے لوٹے جمع کئے اور یو ٹرن کا ریکارڈ قائم کیا اس کی گرفتاری پر اس دیس کو طعنے دینا شروع کر دیں جو ہماری آخری پناہ گاہ ہے ۔ ہمارے یہ دوست تو اس حد تک چلے گئے کہ اقلیتوں کے قاتل مودی کی وہ تقریر وائرل کر دی جس میں وہ براہ راست پاکستانیوں کو ایک ہمدرد دوست بن کر مشورے دے رہا ہے۔اوپر سے ہمارے وہ پاکستانی ہیں ،جنہوں نے یورپ اور امریکہ کے پاسپورٹ لئے ہوئے ہیں اور اب پاکستان کے ڈوبنے یا ابھرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں اور ایک جلوس میں میں نے انڈین جھنڈے بھی دیکھے، انہیں امریکی استعمار اور یورپ کی اس لوٹ کھسوٹ پر کوئی غصہ نہیں جنہوں نے ایک عرصے تک بہت سے ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھا اور اب اپنا معاشی غلام بنایا ہوا ہے بلکہ ہمارے یہ دوست اتنے محتاط ہیں کہ کسی مقامی مسئلے پر مقامی لوگ احتجاج کریں تو یہ ان سے بھی دور دور رہتے ہیں ۔بہرحال پاکستان سے محبت کے حوالہ سے مجھے ان پر کوئی شک نہیں بلکہ اندرون ملک بھی لوگ احتجاج کو منفی رنگ دے رہے ہیں وہ نادانی اور اس خوش فہمی کا شاخسانہ ہے کہ انہیں عمران کی صورت میں ایک نجات دہندہ نظر آیا مگر ایک شخص کی محبت میں منفی سوچوں کا کیا جواز ہے !
آخر میں ایک اور بات، عمران خان کے چاہنے والوں نے صرف 9مئی پر انحصار نہیں کیا بلکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کو مسلسل نشانے پر رکھا ہوا ہے مگر اس رویے کے پس منظر میں سول لبرٹی نہیں بلکہ ایک دفعہ پھر نظر کرم کی التجا پوشیدہ ہے جنرل باجوہ انہیں اقتدار میں لایا تھا جب دوسری دفعہ انہیں اقتدار میں لانا اس کے بس میں نہیں تھا تو عمران خان جس باجوہ کے قصیدے پڑھا کرتے تھے اس کے بعد اس کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس وقت فوج کے حوالے سے وہ سب باتیں نمک مرچ لگا کر پھیلائی جا رہی ہیں جو بعض ناقدین کہتے چلے آئے ہیں یہ کہاں کی بہادری ہے یہ کہاں کی جمہوری پاسداری ہے ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا
’’اب بچوں کو اردو کے حروت تہجی ہمیشہ یار رہیں گے‘‘
ہوتی ہے ‘‘