عمران نے فوجی عدالت سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد فوجی تحویل میں دیے جانے کے خطرات کے پیش نظر سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ممکنہ طور پر فوجی تحویل میں دیے جانے کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔

یاد رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف بار بار کہہ چکے ہیں کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش میں جنرل فیض حمید اور عمران خان دونوں شریک تھے لہذٰا فوج کے ہاتھوں فیض کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے اعلان کے بعد اب بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا تھا کہ فیض حمید کی طرح عمران خان کو بھی فوجی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں عمران نے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے جس میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ان کے علاوہ انسپکٹر جنرل اسلام آباد علی ناصر رضوی، آئی جی پنجاب عثمان انور ، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی جیل خانہ جات بھی فریق بنائے گے ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں دینے سے روکا جائے اور اس بات کع یقینی بنایا جائے کہ بانی پی ٹی آئی سویلین عدالتوں اور سویلین تحویل میں ہی رہیں کیونکہ پاکستانی آئین کے مطابق کسی بھی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ تاہم یہ درخواست دائر کرتے وقت عمران بھول گئے کہ ان کی اپنی وزارت عظمی کے دوران دو سویلینز کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے بعد سزا سنائی گئی تھی اور وہ ابھی تک قید میں ہیں۔

اگر مذاکرات ہوئے تو کیا عمران کو معافی ملنے کا امکان موجود ہے؟

واضح رہے کہ 19 اگست کو عمران خان نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کا سارا ڈرامہ مجھے ملٹری کورٹ لے جانے کے لیے کیا جارہا ہے، انہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ جنرل فیض کو انکے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سب کو معلوم ہے میرے خلاف باقی سارے کیسز فارغ ہوچکے ہیں، اس لیے میرے مخالفین مجھے اب ملٹری کورٹس کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، تا کہ جنرل (ر) فیض سے کچھ نہ کچھ اگلوا کر مجھے سزا سنائی جا سکے۔

بعد ازاں 25 اگست کو حکومتی ترجمان برائے قانونی امور بیرسٹر عقیل ملک نے اشارہ دیا تھا کہ عمران خان کے خلاف گزشتہ سال 9 مئی کو درج ہونے والے  مقدمات فوجی عدالتوں میں چل سکتے ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی آئین میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی گنجائش تب نکل آتی ہے جب وہ فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کسی سازش کا حصہ ثابت ہو جائیں۔

Back to top button