اگر مذاکرات ہوئے تو کیا عمران کو معافی ملنے کا امکان موجود ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا جا رہا ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان اڈیالہ جیل کے جس سیل میں بند ہیں اس کی کنجی وزیراعظم شہباز شریف کے پاس نہیں بلکہ اصل اور طاقتور فیصلہ سازوں کے پاس ہے جو سانحہ 9 مئی 2023 کے مرکزی ملزم کو کسی صورت معافی دینے کے موڈ میں نہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر مذاکرات کے حوالے سے اپنا موقف بدلنے والے ’کپتان‘ تو اپنے مداحین کی نگاہ میں اب بھی’ڈٹ‘ کر کھڑے ہیں۔ لیکن دوسری جانب انہوں نے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کو ’آئین بچانے‘ کی خاطر حکومت سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔ ’حکومت‘ کا ذکر چلا تو میرے جھکی ذہن میں فوراً یہ سوال اٹھا کہ ’کون سی حکومت‘؟ شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت ان دنوں وفاق میں نظر آتی ہے اسے تحریک انصاف اور اس کے حامی ’فارم 47‘ کی بنیاد پر بنائی گئی حکومت قرار دیتے ہیں۔ وہ مصر ہیں کہ ’فارم 45‘ میں مرتب ہوئے نتائج ہی 8 فروری 2024ء کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے عوام کے جذبات کے حقیقی ترجمان تھے لیکن ’فارم 47‘ نے ان جذبات کا احترام نہیں کیا۔ لہذا اگر آئین بچانا ہے تو ’فارم 45‘ کے مطابق حقیقی عوامی رائے پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ایسا ہو گیا تو تحریک انصاف موجودہ قومی اسمبلی میں کم از کم 180 نشستوں پر کامیاب تصور ہوگی۔ اس کی ’حقیقی‘ تعداد کا اعتراف کر لیا جائے تو موجودہ  قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم اکثریت کی حامل ہوتے ہوئے تحریک انصاف کو شہباز شریف کی جگہ اپنی صفوں میں سے کسی صاحب یا صاحبہ کو وزیراعظم کے عہدے پر نامزد کرنا ہو گا۔ جو بھی نامزد ہوا یقینی طورپر ’عبوری وزیراعظم‘ ہی تصور ہو گا کیونکہ حکومت سنبھالتے ہی تحریک انصاف کی صفوں سے نامزد ہوئے وزیراعظم کو اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھول کر وہاں مقید عمران خان کو جیل سے باہر نکالنا پڑے گا۔ وہ باہر نکلے تو چند ہی ہفتوں میں فاسٹ ٹریک پر پیش قدمیوں کی بدولت تحریک انصاف کے بانی کو ضمنی انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں لایا جا سکتا ہے۔ وہ ایوان بالا تک پہنچ گئے تو اگلی منزل وزیر اعظم کا دفتر ہو گا۔ وہ اس منصب پر دوبارہ فائز ہو گئے تو آئین نہ صرف بچ جائے گا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا۔ آئین بچا لینے کے بعد شاید وزیراعظم کے منصب پر لوٹے خان صاحب اپنے مخالفین کو دریا دلی سے معاف کر دیں گے۔ یوں ہم تم ہوں گے، بادل ہو گا اور رقص میں سارا جنگل ہو گا۔

کیا چیف جسٹس بن کر منصور شاہ عدلیہ کی ساکھ بحال کر سکیں گے ؟

نصرت جاوید یہ خیالی منظر نامہ پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ آئین بچانے اور ملک سنوارنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کی گفتگو فقط تحریک انصاف کے حلقوں ہی سے نہیں چلائی گئی۔ محمود خان اچکزئی نے بھی اپنی جانب سے مذکورہ اطلاع کو مصدقہ بتایا ہے۔ ان کی تصدیق کو مزید قوت اس اجلاس نے بھی فراہم کردی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی صدارت میں ہفتے کے روز لاہور میں ہوا ہے۔ اس کے اختتام پر ’ذرائع‘ نے یہ دعویٰ کیا کہ ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف بھی سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کے حامی ہیں۔ دوسری جانب نہ صرف نواز شریف کے قریبی ذرائع نے اس دعوے کی تردید کر دی ہے بلکہ ان کی جماعت کے دو سینئر ترین رہ نما احسن اقبال اور خواجہ آصف نے بھی واضح کر دیا ہے کہ تحریک انصاف سے مذاکرات اس لیے نہیں ہو سکتے کہ کوئی بھی عمران خان پر اعتبار کو تیار نہیں جو روزانہ اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال مصر ہیں کہ عمران خان 9 مئی 2023ء کے واقعات کی ذمہ داری لیتے ہوئے معافی کے طلب گار ہوں اور آئندہ نیک چال چلن کا وعدہ فرمائیں۔ اس مطالبے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے مذاکرات کی خواہش محض خواہش تک ہی محدود ہوئی نظر آ رہی ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ’فارم 47‘ کی بدولت قائم ہوئی حکومت کے ساتھ بالآخر ’آئین‘ کے تحفظ کی خاطر رضامند ہوئی تحریک انصاف کے جواں سال مداحین مجھ جیسے بڈھے صحافیوں کو ریٹائر ہونے کے مشورے دیتے ہیں۔ یوتھیوں کی رائے میں مجھ جسسے پرانے لوگوں کے خیالات یقینا ’فرسودہ‘ ہوں گے۔ لیکن ہم جن اصولوں کی پاسداری کے گماں میں مبتلا تھے انکے تحفظ کو اب بھی کسی نہ کسی صورت ڈٹے رہنے کی ہمت دکھا دیتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ’انقلابی‘ تو مٹی کے مادھو نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کے محبوب قائد کو جیل میں گئے صرف ایک سال گزرا ہے۔ لیکن وہ ’فارم 47‘ کی مدد سے بنی حکومت کیساتھ مذاکرات پر رضا مند ہو چکے ہیں۔ ایسے میں عمران خان سے سوال یہ ہے کہ "اگر تو ماڑی تھی تو پھر لڑی کیوں تھی؟”

نصرت جاوید تحریک انصاف کے عمرانڈوز کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوخیز دوشیزاﺅں کی طرح محلے کے تھڑوں پر بیٹھے ’بڈھوں‘ کو طعنے دینے والے نام نہاد ’انقلابیوں‘ سے میری فریاد ہے کہ سوشل میڈیا سے وقت نکال کر کبھی کبھار ایک آدھ کتاب بھی پڑھ لیا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو جلد ہی دریافت کر لیں گے کہ پاکستان کا المیہ فقط یہ نہیں کہ تاریخ یہاں خود کو دیگر ممالک کے مقابلے میں کثرت سے دہراتی ہے۔ ہمارا المیہ زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں ’تاریخ دہراتے‘ ہوئے کردار بھی نہیں بدلتے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مذاکرات کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹ لیا جائے، اصل حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے قائد جس بیرک میں بند ہیں اس کی ’کنجی‘ موجودہ وزیر اعظم کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اصل فیصلہ سازوں کے پاس ہے جو سانحہ 9 مئی کے مرکزی ملزم کو کسی بھی صورت معاف کرنے کے موڈ میں نہیں۔

Back to top button