انڈیا پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرے گا یا میزائیل حملہ کرے گا؟

مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کا الزام پاکستان پر لگائے جانے کے بعد انڈین میڈیا یہ دعوی کر رہا ہے کہ بھارت کی جانب سے اس کا سخت فوجی رد عمل آئے گا، جو یا تو ایک سرجیکل سٹرائیک کی صورت میں ہو گا اور یا پھر میزائل حملہ کیا جائے گا۔ چنانچہ پاکستان کی جانب سے بھی بھرپور جواب دینے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ابھی تک بھارتی حکومت نے پاکستان کے حوالے سے جو بھی پابندیاں لگائی ہیں، ان کے ردعمل میں پاکستان نے بھی سخت ترین فیصلے کیے ہیں لہذا اگر انڈیا کوئی سرجیکل سٹرائیک یا میزائل حملہ کرتا ہے تو پاکستان کی جانب سے اس عمل کا دوگنا رد عمل آئے گا۔
حالانکہ پہلگام حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری حریت پسند گروپ دی ریزسٹنس فرنٹ نے قبول کر لی ہے لیکن انڈیا اس حملے کا الزام پاکستان کے سر تھوپنے پر تلا ہوا ہے۔ پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگانے کے بعد بھارتی حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ان میں واہگہ بارڈر کی بندش، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور سفارتکاروں کی بےدخلی شامل ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ‘سخت جواب’ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف حملے میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی بلکہ پس پردہ رہ کر یہ کارروائی کروانے والوں منصوبہ سازوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت سوال یہ نہیں کہ آیا انڈیا کوئی عسکری ردعمل دے گا یا نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ایسا ردعمل کب دیا جائے گا، یہ کتنا ہو گا اور کس قیمت پر دیا جائے گا۔ انڈیا کے سینئیر دفاعی تجزیہ کار سری ناتھ راگھون نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم ایک سخت ردعمل آتا دیکھ رہے ہیں، جس کا مقصد نا صرف انڈین عوام بلکہ پاکستانی عناصر کو ایک واضح پیغام دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ 2019 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے مابین سرحد پار فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کارروائی کی حدود مقرر کی جا چکی ہیں۔ لیکن انڈیا کے لیے کم پیمانے کی کارروائی کرنا مشکل ہو گا۔
پاکستان پر بالاکوٹ جیسی انڈین ائیر سٹرائیک کا امکان کیوں نہیں؟
تاہم یہ بھی طے ہے کہ کسی بھی بھارتی حملے کی صورت میں پاکستان بھی بھر ہور جواب دے گا، جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا تھا۔ ایسے میں سب سے بڑا خطرہ، ہمیشہ کی طرح، دونوں نیوکلئیر ممالک کے مابین نیوکلیئر جنگ چھڑنے کا ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ 2016 میں اوڑی حملے میں 19 انڈین فوجیوں کے مرنے کے بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول کے پار سرجیکل سٹرائیکس کی تھیں جن میں آزاد کشمیر میں جہادیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 2019 میں پلوامہ کے خود کش حملے میں بھارتی فوج کے 40 فوجی مارے جانے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں عسکریت پسندوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ 1971 کی جنگ کے بعد سے یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کی سرحدی حدود میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اس کا بھر پور جواب دیا گیا اور انڈین طیارہ مار گرایا گیا جبکہ انڈین پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ تب انڈیا اور پاکستان نے فوجی طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن ایک مکمل جنگ سے گریز کیا تھا۔
اس واقعے کے دو سال بعد 2021 میں، انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود بڑی حد تک برقرار رہی ہے۔ خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ ’پہلگام میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں بڑی تعداد میں انڈین شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اگر دہلی کسی بھی سطح پر اس معاملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا تعین کرتا ہے یا محض یا فرض بھی کر لیتا ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہو سکتا ہے تو انڈیا کی جانب سے عسکری ردعمل دیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ انکا کہنا تھا ویسے بھی ایسے ردعمل کا مودی حکومت کو سیاسی فائدہ ہو گا، کیونکہ انڈیا میں پاکستان کو طاقت سے بھرپور جواب دینے کے لیے عوامی دباؤ موجود یے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا فائدہ ہونے کے ساتھ نقصان بھی ہو سکتا یے اور ایک سنگین بحران سر اٹھا سکتا ہے جو دونوں ممالک کو نیوکلیئر جنگ کی جانب لےجا سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی صورتحال میں انڈیا کے پاس دو ممکنہ راستے رہ جاتے ہیں۔ پہلا آپشن یہ ہے کہ 2021 سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی ہے اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ کا جواب دینے کی اجازت دے سکتے ہیں۔دوسرا آپشن یہ ہے کہ 2019 کی طرح کی سرجیکل سٹرائیک یا کوئی کروز میزائل اٹیک بھی کیا جا سکتا ہے، جن میں سے ہر ایک میں جوابی کارروائی کا خطرہ ہے جیسا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد دیکھا گیا تھا۔ یعنی انڈیا کے کیے کوئی بھی راستہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ایسے میں بھارت کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ بھی پریشان ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی پیشکش کر دے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی بھی بحران کی صورت میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں مُمالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ حقیقت فوجی یا سیاسی ہر فیصلے پر حاوی ہوتی ہے۔ لہذا انڈیا کو پاکستان کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی کے سیاسی اور سٹریٹجک فوائد اور نقصانات کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا خیال ہے کہ ’اس بار کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے اور انڈیا محدود سرجیکل سٹرائیک کر سکتا یے۔ انکے مطابق انڈیا کے نقطہ نظر سے اس طرح کے حملے کا فائدہ یہ ہے کہ اسکا دائرہ کار محدود ہے، اس لیے پاکستان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ انڈین عوام کو دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ انڈیا نے جواب دیا ہے اور ایک سخت کارروائی کی ہے۔ ان کے مطابق لیکن اس طرح کے حملے پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کی دعوت دے سکتے ہیں۔ یعنی انڈیا جو بھی راستہ اختیار کرے اور پاکستان اس کا جو بھی جواب دے، ہر قدم خطرے سے بھرپور ہے۔