پاکستان پر بالاکوٹ جیسی انڈین ائیر سٹرائیک کا امکان کیوں نہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے پہلگام میں سیاحوں کے قتل کا الزام پاکستان پر لگائے جانے کے باوجود بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان پر 2019 جیسی سرجیکل سٹرائیک دہرانے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے دی جانے والی دھمکیاں دراصل گیدڑ بھبکیاں ہیں اور اسی لیے بھارتی حکومت نے صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حسب روایت مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کی سہ پہر سیاحوں کی ہلاکت کی خبر ملتے ہی بھارتی میڈیا نے پھیپھڑوں کا زور لگاتے ہوئے اس ورادات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیا۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی اچھالی گئی کہ پہلگام میں موجود سیاحوں میں سے ’’ہندو‘‘ مرد تلاش کر کے انہیں گولیوں سے بھونا گیا۔ دراصل لوگوں کو ’’شناخت‘‘  کرنے کے مارنے کی روایت بلوچ انتہا پسندوں سے منسوب رہی ہے۔ پہلگام میں مذہبی شناخت کا پہلو اجاگر کرتے ہوئے بھارتی میڈیا درحقیقت پیغام یہ دینا چاہتا تھا کہ دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے اور ہماری ریاست نے انہیں جعفر ایکسپریس پر ہوئے حملے کا بدلہ لینے کے لئے استعمال کیا ہوگا۔ لیکن یہ احمقانہ کہانی گھڑتے ہوئے مودی میڈیا کے ’’بودی اینکر‘‘ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ بھارت کا ہر چھٹا شہری مسلمان ہے۔ ناظرین کو مذہبی منافرت پر مبنی کہانی سناتے ہوئے وہ بھارت کے ہندوئوں کو اس امر پر اْکسارہے تھے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں سے پہلگام میں ہوئے حملے کا بدلہ لینا شروع کردیں۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایسی غیر ذمہ دار صحافت میں نے زندگی میں بہت کم دیکھی یے۔ تاہم فیس بک وغیرہ ایسی کہانیوں کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک میں مذہبی فسادات بھڑکاتے رہے ہیں۔ بھارت میں بھی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے ہندو انتہا پسند سوشل میڈیا کا واٹس ایپ پلیٹ فارم بھی اکثر استعمال کرتے رہے ہیں۔ نام نہاد مین سٹریم میڈیا میں طیش سے مغلوب غیر ذمہ داری کم از کم مجھے تو پہلی بار دیکھنے کو ملی۔ انڈین میڈیا نے جو فضا بنائی اس نے نریندر مودی جیسے مہا تجربہ کار سیاستدان کو بھی حواس باختہ بناڈالا۔ بھارت کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نریندرمودی کئی حوالوں سے اپنے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے بھی کہیں زیادہ تجربہ کار ہیں۔ نہرو کے برعکس موصوف نے گجرات جیسے اہم صوبے کی دس سال تک وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کیا تھا۔ مسلسل غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں اور خود کو عالمی پیمانے کا مدبرسیاستدان دکھانا چاہ رہے ہیں۔ پہلگام پر ہوئے حملے کے وقت وہ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ انہیں محمد بن سلمان کے نجی کھانے کی دعوت میں شریک ہونا تھا۔ لیکن موصوف نے میڈیا کی چیخ وپکار سے گھبراکر فوراَ بھارت لوٹنے کا فیصلہ کر لیا اور سعودی عرب میں پہلے سے طے شدہ ملاقاتیں اور پروگرام منسوخ کر دیے۔

کیا واقعی بھارت بالاکوٹ جیسے کسی مس ایڈونچر کی پلاننگ کر رہا ہے؟

 

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ جس انداز میں نریندر مودی نے سعودی عرب میں اپنی مصروفیات منسوخ کرکے بھارت لوٹنے کا فیصلہ کیا وہ یہ پیغام دے رہا تھا کہ شاید اپنے وطن لوٹتے ہی وہ پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیں گے۔ اس تاثر کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے دلی واپس لوٹتے ہی دفتر جانے کے بجائے انہوں نے ایئرپورٹ پر موجود معاونین سے پہلگام بارے طویل بریفنگ لی۔ اسکے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس شروع ہوا۔ یہ اجلاس کے شروع ہونے تک بھارتی وزیر اعظم سعودی عرب ہی میں ٹھہرسکتے تھے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ان کی وہاں موجودگی یہ پیغام دیتی کہ بھارت ’’مسلم دشمن‘‘ نہیں۔ ’’مسلم دشمن‘‘ ہوتا تو مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کے خادمین کی جانب سے ان کی گرم جوش آبھگت نہ ہوتی۔ لیکن نریندر مودی نے اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہ دی۔ بھارتی کمیٹی کی خصوصی کمیٹی برائے سلامتی کے اجلاس سے قبل ’میڈیا میں مسلسل قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ بھارت پہلگام حملے کا ’’جواب‘‘ کس طرح دے گا۔

 

نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ 2019 میں کشمیر کے علاقے پلوامہ  میں انڈین فوجی قافلے پر خودکش حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں ایک سرجیکل سٹرائیک کی تھی۔ اس کے ردعمل میں جو فضائی جھڑپیں ہوئیں، ان میں بھارت کا ایک جہاز پاکستانی سرزمین پر گرا لیا گیا، لیکن اس کے پائلٹ کو چائے پلا کر بھارت واپس روانہ کر دیا گیا۔ لیکن اپنا پائلٹ پکڑے جانے کی خفت مٹانے کے لیے بھارت پاکستان کو کوئی جواب نہیں دے پایا تھا۔ نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ پہلگام حملے کے بعد دھمکیاں دینے والی بھارتی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بھی ہو گیا۔ لیکن اس کے اختتام پر جو اعلانات ہوئے، وہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہیں۔ دراصل سفارت کاروں کی واپسی اور ویزوں کی منسوخی پاکستان اور بھارت کے مابین انہونی نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس بابت ضرورت سے زیادہ دہائی مچائی جا رہی ہے کہ بھارت نے سندھ طاس  پر 1960 میں ہوئے معاہدے کو یک طرفہ طورپر غیر معینہ مدت کیلئے ’’معطل‘‘ کر دیا ہے۔ دریائی پانی کی تقسیم کا یہ معاہدہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ معاہدہ جنوبی ایشیاء کے ازلی دشمنوں کے مابین نہیں تھا، بلکہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اس کے گارنٹر ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف شکایات کے ازالے کے لئے ایک طریقہ کار بھی طے کر رکھا ہے۔ لیکن جغرافیائی حقائق سے لاعلم افراد سمجھ نہیں پا رہے کہ سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کے اعلان کے بعد بھارت ہمارے حصے میں آئے دریاؤں یعنی چناب اور جہلم کا پانی کہاں رکھے گا؟۔ ان دریائوں کے پانی کو پاکستان پہنچنے سے روکنے کے لئے کثیر سرمایے سے نئے ڈیم بنانا ہوں گے جن کی تعمیر کے لئے کم از کم ایک دہائی درکار ہو گی۔

Back to top button