کیا انڈس واٹر معاہدہ معطل کر کے انڈیا پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟

بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ انڈس واٹر معاہدہ معطل کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس اسے ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں۔
پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ ویسے بھی بھارتی اعلان محض سیاسی بیان بازی ہے اور اس سے پاکستان پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
یاد رہے کہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو ایک حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں اُن میں اٹاری-واہگہ سرحد کی بندش، سفارتی عملے میں کمی اور ویزوں پر پابندی کے علاوہ چھ دہائی پرانے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کی معطلی بھی شامل ہے۔ معاہدے کی معطلی کا فیصلہ وزیراعظم مودی کی سربراہی میں انڈیا کی سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ انڈیا نہ ہی اب اس پر عملدرآمد کرے گا اور نہ ہی اس کا پابند ہو گا تاوقتیکہ پاکستان کے سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ترک کرنے کے ناقابلِ تردید ثبوت نہیں ملتے۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم اِن تینوں دریاؤں یعنی سندھ، چناب، جہلم کے بھی 20 فیصد پانی پر انڈیا کا حق ہے۔
انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں تنازع جاری ہے۔ بھارت کی جانب سے انڈس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ اعلان پہلے سے ہی پانی کی کمی کا شکار پاکستان کی مشکلات مزید بڑھائے گا۔
اس بارے میں سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز عموماً مئی کے مہینے میں یہ اجلاس کرتے ہیں اور دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس کی سالانہ رپورٹ یکم جون کو پیش کی جاتی ہے۔ میمن کے مطابق عملدرآمد کی معطلی کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجلاس، معائنہ دورے یا دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی ڈیٹا شیئرنگ نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہ انڈیا نے اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا اعلان اب کیا ہے مگرعملاً وہ چار برس سے اس پر عملدرآمد روک چکا ہے۔ ان کے مطابق انڈیا گذشہ چار برس سے ویسے بھی واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے۔
انڈیا پاکستان کی نیوکلیئر جنگ میں 25 کروڑ لوگ مرنے کا امکان
سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا شیئرنگ نہ ہونے سے پاکستان کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا ’کیونکہ ہم اپنی طرف دریاؤں پر آلات لگا کر پانی کے بہاؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔‘ آبی امور کے ماہر ڈاکٹر شعیب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انڈیا نے اپنے اعلان میں سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ اس فیصلے کے تحت کیا کرے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کے حصے کے دریاؤں کا 19 فیصد پانی پہلے ہی روکتا ہے جسے وہ ذخیرہ کر کے اپنے وسائل میں جمع کر رہا ہے۔ لہذا کمشنر کے سالانہ اجلاس، دریاؤں میں پانی کے ڈیٹا شیئرنگ اور دونوں انڈس واٹر کمشنرز کے مابین رابطے میں تعطل کے سوا بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کا یہ اعلان پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟ اس بارے سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ قلیل مدتی لحاظ سے اس کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ انکے بقول انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔ تاہم شیراز میمن نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا ان دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو مطلع کیے بغیر تبدیل کر سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کو اپنے ہر آبی منصوبے کے ڈیزائن اور مقام کے متعلق تفصیلات دینے کا پابند ہے اور وہ ماضی میں ایسا کرتا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ وہ پاکستان کو بنا بتائے ایسے مزید منصوبے کر سکتا ہے جس کا اثر پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر پڑے۔ تاہم شیراز میمن کے مطابق ایسا کرنا انڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔