آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے حکومت کے کون سے تین منصوبے ہیں؟
تحریک انصاف کے علاوہ تمام حکومتی و اپوزیشن جماعتیں ملک میں آئینی عدالتوں کے قیام پر متفق ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے عوامی جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں آئینی ترامیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات کے پیکج کی منظوری کے لیے پر عزم ہیں لیکن حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فی الحال دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث آئینی ترامیم منظور کرانے میں دشواری کا سامنا ہے۔تاہم حکومت جہاں دو تہائی اکثریت کے حصول کیلئے مولانا کو رام کرنے کیلئے کوشاں ہے وہیں حکومت نے دوتہائی اکثریت کیلئے مائنس مولانا پلان بی اور سی بھی بنا لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے 8 عمراندار ججز کے فیصلے کے مطابق مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا نوٹیفکیشن کرتا ہے تو حکومت کے لیے مشکل برقرار رہ سکتی ہے۔تاہم اس کھ چانسز انتہائی کم ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اگر سپیکر قومی اسمبلی کے خط پر عمل کرتے ہوئے نئے ترمیمی الیکشن ایکٹ کے مطابق مخصوص نشستیں دوبارہ پہلے والی حکومتی و اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تو حکمران اتحاد کو پھر دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر 30 ستمبر کو سماعت کیلئے مقرر 63 اے کی تشریح سے متعلق اپیل پر عدالت فلور کراسنگ کے ذریعے دیے گئے ممبران کے ووٹ گنتی میں شمار کرنے کا قانون بحال کر دیتی ہے تو حکمران اتحاد کو دوسرے اراکین اسمبلی ساتھ ملانے کا موقع مل سکتا ہے اور دو تہائی اکثریت پوری ہو سکتی ہے اور اس طرح آئینی ترمیم کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے آئینی عدالتوں کے قیام بارے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق حکومت ہر صورت جسٹس قاضی فائز عیسٰی کوموجودہ عدالتی سیٹ اپ میں اکاموڈیٹ کرنا چاہتی ہے اسی لئے سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع میں ناکامی کے بعد آئینی عدالت کا شوشا چھوڑا گیا ہے تاکہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو نئی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بنایا جا سکے۔ پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ ’ہم کسی صورت آئینی عدالتیں قائم کر کے آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے خلاف وکلا تحریک شروع کر دی گئی ہے پہلے لاہور میں کنونشن ہوا اور اب کراچی میں کریں گے۔‘
تاہم مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کے مطابق ’جو کہتے ہیں یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا وہ لوگ سن لیں آئینی عدالت ہر صورت بنے گی۔ یہ میثاق جمہوریت کی ڈیمانڈ ہے پیپلز پارٹی سمیت تمام حکومتی جماعتوں نے تیاری مکمل کر لی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی ان عدالتوں کے قیام پر متفق ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایک اچھے عمل پر سیاسی جماعتیں متحد ہیں باقی جزیات پر جن میں ججز کی عمر کیا ہونی چاہیے، ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا یا اختیارات کیا ہوں گے اس حوالے سے بہتری کے لیے گفتگو جاری ہے۔‘رانا ثنا اللہ کے مطابق ’ہم نے جو ابھی تک طے کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو آئینی عدالت کا چیف جسٹس لگایا جائے۔ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ فلاں کو لگایا جائے یا فلاں کو لگایا جائے یہ بحث فضول ہے۔ سینیئر تین ججز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔‘ان میں سے کسی ایک کو مجوزہ آئینی عدالت کا سربراہ لگایا جائے گا۔یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ایک جج کے لیے قانون سازی کی جاری ہے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین بھی ملک میں آئینی عدالتوں کے قیام کو نظام انصاف کیلئے خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کے بقول، ’آئینی عدالتوں کی مثالیں دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں۔ پاکستان میں چیف جسٹس کے عہدے پر بیٹھنے والوں نے جس طرح ماضی میں پارلیمانی بالادستی کو نقصان پہنچایا۔ اب اس کی گنجائش ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ ابھی سیاسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں بلکہ 2006 میں بنائے گئے اس میثاق جمہوریت کے تحت ہو رہا ہے جس پر عمران خان، مولانا سمیت تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کے مطابق ’آئین کو وقت کے ساتھ بہتر کرنا یا اس میں ترامیم لانا حکومت کا پارلیمانی حق ہے جو انہیں آئین پاکستان دیتا ہے۔ جہاں تک بات ہے آئینی عدالتوں کی تو ان کے قیام پر سپریم کورٹ بار یا پاکستان بار کونسل کو کوئی اعتراض نہیں۔ آئینی عدالتیں شروع سے ہی بار ایسوسی ایشنز کا مطالبہ رہا ہے۔ کیونکہ موجودہ نظام میں کیسوں کا التوا حد سے بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کرسکتی ہے 1973 سے اب تک آئین میں 25 ترامیم کی گئی ہیں جن میں کوئی ترمیم آئین سے متصادم نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی روایت نہیں بلکہ آئینی عدالت جرمنی، روس، بیلجیئم، ترکی، مصرسمیت دنیا کے 85 ممالک میں موجود ہیں۔
سینئر صحافی سلیم بخاری کے مطابق ’جب 2006میں مشرف دور میں چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا اس میں نواز شریف، بے نظیر بھٹو سمیت عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اتفاق کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ آئینی عدالتوں کا فیصلہ تو اس وقت ہوا تھا لیکن سیاسی اور عدالتی مداخلت کے باعث یہ عدالتیں وجود میں نہیں آئیں اب اگر یہ اچھا کام ہونے لگا ہے جو وقت کی ضرورت ہے تو پی ٹی آئی من پسند چیف جسٹس بنانے کے لیے مخالفت کر رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں جس طرح چیف جسٹس کے عہدے کو استعمال کر کے سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے اور لوگوں کو سالوں نہیں بلکہ دہائیوں انصاف سے محروم رکھا گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے آئینی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہوکر اتفاق رائے سے آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔