آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا اصل مقصد کیا ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا بنیادی مقصد شر پسندوں یوتھیوں کو یہ تاثر دینا تھا کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔
فوج طمب کرنے کے سرکاری حکم نامے میں آئین کی شق 245 کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے سویلین انتظامیہ کی مدد کی خاطر فوج کو طلب کر سکتی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ فوجی دستوں کی تعداد کیا ہو گی، ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی اور انہیں کہاں کہاں تعینات کیا جائے گا۔
فوج طلبی کے حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ فوجیوں اور اثاثوں کی اصل تعداد اور علاقوں کا تعین جی ایچ کیو کے مشورے سے کیا جائے گا۔ آئینی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت امن و امان کا نظام فوج کے حوالے کرنے کا ایک باقاعدہ میکنزم ہے۔ اس کے مختلف مرحلے ہیں جنہیں طے کرنے کے بعد ہی فوج میدان میں صورتحال کنٹرول کرتی ہے۔ فوج جب بھی عوامی مقامات پر امن عامہ سنبھالنے کے لیے جاتی ہے تو پولیس کے ہمراہ جاتی ہے اور فوجی دستے تب تک مکمل کنٹرول نہیں سنبھال سکتے جب تک کہ صورتحال انتہائی زیادہ خراب نہ ہو جائے۔
حکام کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج صرف اسی صورت میں فیکڈ میں جائے جب حالات انتہائی خراب ہو جائیں۔ لیکن جب انتظامیہ ایک بار امن و امان کی برقرار رکھنے کی ذمہ داری فوج کو سونپ دے تو پھر وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے شرہسندوں پر گولی بھی چلا سکتی ہے۔ اسی لیے وفاقی حکومت نے اپنے حکم نامے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ شر پسند عناصر کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے شر پسندوں نے اسلام آباد میں سری نگر روڈ پر رینجرز کا ناکہ توڑتے ہوئے 4 رینجرز جوانوں کو کچل کر شہید کر دیا تھا جس کے بعد فوج کو طلب کیا گیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کی آرٹیکل 245 کے تحت سویلین فورسز کی امداد کے لیے تعیناتی سویلین فورس پولیس اور نیم فوجی دستے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز وغیرہ کی ناکامی کے بعد ہی ہوتی ہے۔’یہ تبھی ہوتا ہے جب پولیس اور نیم فوجی دستے اپنے تمام ذرائع استعمال کر چکنے کے باوجود صورتحال سنبھالنے میں ناکام ہو جائیں۔ ایسے میں فوج آرٹیکل 245 کے تحت بکائی جاتی ہے جو سویلین مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ فوج کنٹرول سنبھال لے تو اس کے پاس صورتحال کو قابو کرنے کے لیے واحد ہتھیار گولی چلانا ہوتا ہے جس کو استعمال کرنے کے لیسے سویلین مجسٹریٹ تحریری اجازت دیتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج بلانے کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تاہم دوسرے معاملات میں ہائی کورٹس کام کرتی رہیں گی۔ آرٹیکل 245 کے عمل میں لائے جانے کے بعد ’ہائی کورٹ کے اختیارات معطل ہو جاتے ہیں۔ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کی روزمرہ کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں جن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سپریم کورٹ بھی فوج کو طلب کرنے کے فیصلے کو مسترد نہیں کر سکتی، البتہ اگر اسی دوران انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہو تو سپریم کورٹ 3/184 کے تحت اس فیصلے کے خلاف حرکت میں آ سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسلام اباد میں فوج طلب کرنے کے فیصلے کی نوعیت علامتی ہے اور اس کا مقصد عمران اور ان کے حامیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔
اسلام اباد میں ایمرجنسی کے ممکنہ نفاذ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اسے حکومتیں بہت سوچ سمجھ کر لاگو کرتی ہیں۔ آئین کی شق 245 اور ایمرجنسی کے نفاذ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شق 245 کے تحت فوج بلانے کا حکومت کو کوئی حساب نہیں دینا پڑتا، لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر اندر حکومت کو اسمبلی کا اجلاس بلوا کر اس عمل کی توثیق کروانا پڑتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دوران پورا آئین ہی معطل ہو جاتا ہے، اور اسکا تعلق لازمی طور پر امن و امان سے نہیں ہوتا۔ 1999 میں ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر بھی ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی گئی تھی، جب جنرل مشرف نے 2007 میں ججوں کے اختیارات معطل کرنے کے لیے ایمرجنسی لگا دی تھی۔