کیا اب فوجی عدالتوں کا اگلا ٹارگٹ عمران خان بننے جا رہے ہیں؟

9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کو ملٹری کورٹس کی جانب سے دو اقساط  میں سزائیں سنانے کے بعد اب اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگلی باری اڈیالہ جیل میں بند اصل منصوبہ ساز عمران خان کی ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین روزنامہ ڈان میں اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے 85 حامیوں کو سخت سزائیں دینے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ان سزاؤں کو ’انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل‘ قرار دیا ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی نے اسے انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔

زاہد حسین کا کہناہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سویلینز کے فوجی ٹرائل کو متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ ان فیصلوں کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے ملک میں جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی سے متعلق سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی سویلینز کے فوجی ٹرائل کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عوامی نظام سے بالاتر انصاف کو ملک میں فوجی آمریت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

اس سے پہلے جہاں سپریم کورٹ نے فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں پی ٹی آئی کے 85 حامیوں کے ٹرائلز میں فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی وہیں اس نے ایسے فیصلوں کو فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کیا تھا۔ لیکن یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ سویلینز نے فوجی ٹرائل کا سامنا کیا ہو۔ اس سے پہلےعمران خان کی وزارت عظمی کے دوران بھی درجن بھر سےزائد سویلینز کا فوجی ٹرائل کیا گیا اور انہیں سزائیں سنائی گئیں۔ان ٹرائلز میں انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کا مقدمہ سب سے متنازعہ تھا جنہیں 24 برس پرانے کیس میں گرفتار کر کے سزا سنائی گئی۔

کیا عمران خان چوروں کی حکومت سے NRO حاصل کر پائیں گے؟

 

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو سزائیں سنانے سے روک رکھا تھا۔ تاہم جب اس سٹےآڈر کے خلاف اپیل آئینی بینچ کے پاس گئی تو اس نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔ ایسے میں سوال یہ یے کہ کیا فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانےکی اجازت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی حمایت کر دی ہے؟ یہ تائثر ہمارے نظامِ عدل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ان خفیہ ٹرائلز میں قانونی طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے ملزمان کے قانونی حقوق پورے کیے گئے یا نہیں۔ یقیناً آئین کے تحت تمام ملزمان فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں اور ان کی اخری کورٹ اف اپیل سپریم کورٹ اف پاکستان ہو گی۔ تاہم اب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر اہم رہنماؤں کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے جنہیں آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں 9 مئی کے ’منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

اگر یہ سچ ہوجاتا ہے تو یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ جب سابق وزیراعظم کو فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ بہت سے گرفتار ملزمان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر بھی 9 مئی میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا جاسکتا رہا ہے جن پر عمران خان کے ایما پر فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت فیض حمید فوجی تحویل میں ہیں اور ’سیاسی سرگرمیوں میں ملوث‘ ہونے کے الزام میں کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا کررہے ہیں۔ دفاعی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے پوچھ گچھ کی اطلاعات کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔

دوسری جانب ٹرائل کی ٹائمنگ پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک متعلقہ افراد تک پیغام پہنچانا مقصود تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعے میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی سزاؤں کا اعلان اسلام آباد میں 26 نومبر کے واقعے کے بعد کیا گیا کہ جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن میں کچھ مظاہرین مارے گئے تھے۔ اس فیصلے کے بعد 9 مئی ایک بار پھر خبروں میں آچکا ہے۔ ملک گیر پُرتشدد واقعات کو 18 ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس روز ملک بھر میں جی ایچ کیو اور لاہور کورکمانڈر ہاؤس سمیت متعدد فوجی تنصیبات کو مشتعل ہجوم نے نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم اتنی اہم تنصیبات کی ناقص سیکیورٹی سے متعلق انکوائری بھی منظرعام پر نہیں آسکی ہے۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ محض عمران کی گرفتاری کے خلاف عوامی غم و غصے کا مظاہرہ تھا یا اس دن کے واقعات عوام میں بڑھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے عکاس تھے؟ پھر یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ کچھ اعلیٰ سطح کے فوجی افسران کو بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کے سلسلے میں برطرف کر دیا گیا تھا، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا ان فوجی افسران کو فوجی عدالت کے تحت سزا سنائی گئی یا نہیں۔ اس تمام پیش رفت نے 9 مئی کے واقعے کو ایک دلچسپ رخ دیا۔ اگرچہ فوجی افسران کے فوجی ٹرائلز ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث شہریوں پر فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اس واقعے کو حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو مات دینے کے لیے ایک آسان سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ زاہد حسین کے بقول بدقسمتی سے حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں متنازعہ سیاست کے اس کھیل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے ۔

Back to top button