عسکری حلقوں نےعمران کی رہائی کا امریکی مطالبہ مسترد کر دیا

صدر ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گینیل کی جانب سے بار بار عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے حکومتی اور عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی کسی مجرم کی رہائی صرف تب ہی ممکن ہے جب عدالت اسے الزامات سے بری کر دے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی میں نام بنانے والے رچرڈ گینیل کو بچگانہ مطالبات کر کے پی ٹی آئی والوں کی امیدیں نہیں بڑھانی چاہیئں کیونکہ انہیں بعد میں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اور اسکے عہدیداروں کے اس وقت پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں، نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے عمران خان کے حق میں یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں کہ 20 جنوری کو اقدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہوگی اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے دباؤ بڑھے گا، یعنی تحریک انصاف کا مارچ 2022ء میں شروع ہونے والا ’’ایبسولوٹلی ناٹ‘‘ اور "ہم کوئی غلام ہیں” کا بیانیہ ’’اب ٹرمپ ہی عمران کا رہا کروائے گا‘‘ پر آ کر رک گیا ہے۔

تحریک انصاف کے کارکن اور لیڈر شپ امریکی صدر کے نمائندہ رچرڈ گرینیل کے ٹویٹس پر خوشیاں منا رہے ہیں جس میں وہ کبھی خان کی رہائی کی بات کر رہے ہیں اور کبھی حقیقی آزادی کے ٹویٹس کر رہے ہیں، ان ٹویٹس میں آتی شدت نہ صرف کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور رہنما کی جانب سے اس کی تائید، تصدیق یا تردید میں کوئی بیان نہ آنا صورتحال کو دلچسپ بنا رہا ہے۔

یہ تو اب وقت کے ساتھ واضح ہو جائے گا کہ امریکہ میں ہم جنس پرست کے طور پر مشہور رچرڈ گینل کی ٹویٹس کی اصل حیثیت کیا ہے اور کیا اس سب معاملے کو نو منتخب امریکی صدر کی آشیر باد حاصل ہے۔ لیکن ملٹری کورٹس سے 9 مئی 2023 کے ذمہ داران کی سزاؤں کے معاملے پر مغرب سے رد عمل آنا شروع ہو چکا ہے، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 85 یوتھیوں کو سزائیں سنانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کیا اب فوجی عدالتوں کا اگلا ٹارگٹ عمران خان بننے جا رہے ہیں؟

 

حکومت پاکستان کی جانب سے اس پر باقاعدہ رد عمل دیا گیا ہے، دفتر خارجہ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق سے متعلق بین الا قوامی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے اور پاکستانی قوانین بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون سے ہم آہنگ ہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے پاکستان کے قوانین کے تحت کئے گئے ہیں جو پارلیمان کے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ہم بغیر کسی امتیاز اور دہرے معیار کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کو برقرار رکھنے کے لیے یورپی یونین سمیت اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے، اگرچہ پاکستان نے اپنا واضح مؤقف ان ممالک کے سامنے رکھ دیا ہے مگر یہ بات اپنی جگہ واضح ہے کہ موجودہ صورتحال میں مغرب کی جانب سے آنے والے اعتراضات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔

 

ان ممالک کو قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس سے ملنے والی سزاؤں کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں نظرثانی اور اپیلوں کے فورم موجود ہیں اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہی ان عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی ہے، جس انداز سے مغربی ممالک پاکستان کے عدالتی نظام پر اچانک معترض ہو رہے ہیں کچھ حلقے اس مغربی طرزِ عمل کو کسی اور تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جہاں ایک جانب اس مغربی دباؤ کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہیں اچانک ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک مذاکراتی عمل بھی شروع ہوگیا ہے، دیر آید درست آید، ملک سے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے یہ مذاکراتی عمل ناگزیر ہے مگر یہ تاثر درست نہیں کہ ایسا مغرب کے دباؤ پر ہو رہا ہے۔

 

ذمہ دار حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکراتی عمل خالصتاً سیاسی عمل ہے جس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کئی مرتبہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مذاکراتی عمل شروع ہونا ہے تو تحریک انصاف کو سیاسی قیادت کے ساتھ ہی بیٹھنا ہے، تحریک انصاف نے بھی حیران کن طور پر نہ صرف اس عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ آئندہ نشست دو جنوری کو طے ہوگئی ہے جس میں تحریک انصاف با قاعدہ اپنے مطالبات تحریری طور پر حکومت کے سامنے رکھے گی۔ اس سے پہلے عمران خان نے یہ ضد لگا رکھی تھی کہ وہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے اور چوروں اور ڈاکوؤں کی حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی۔

 

سوال یہ ہے کہ اس مذاکراتی عمل میں اگر اسٹیبلشمنٹ شامل نہیں ہے تو حکومت کے پاس کتنا مارجن ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے لئے کچھ کر سکے؟ اور تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے پاس کتنا مینڈیٹ ہے؟ اس سارے معاملے میں اگر تحریک انصاف کو سب سے پہلے کچھ چاہیے تو وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہے، جو صرف عدالتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور اندر کی خبر رکھنے والے حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جوں ہی حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات شروع ہوئے، تحریک انصاف کے 85 حمایتیوں کو اوپر تلے فوجی عدالتوں نے سزائیں سنا دیں۔ ان سزاؤں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے لیے کسی قسم کی گنجائش دکھانے کو تیار نہیں اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگلا فوجی ٹرائل عمران خان کا ہو۔ ویسے بھی عمران خان کے خلاف مزید کیسز میں فیصلے آنے کو تیار ہیں، جنوری کے پہلے ہفتے میں عمران کیخلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا، توشہ خانہ ٹو کیس میں بھی بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے اور اس کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ ایسے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کی رہائی صرف مغربی دباؤ پر ممکن ہو جائے گی، انہیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

Back to top button