اسحاق ڈار اور نثار کی پارلیمنٹ سے چھٹی کی تیاری

منتخب نمائندوں کے حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور آرڈیننس جاری ہونے کے بعد چوہدری نثار اور سینیٹر اسحاق ڈار کی نشستیں چھن جانے کا خدشہ ہے، تاہم اس معاملے میں نواز لیگ کی جانب سے قانونی جنگ بھی شروع کی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے انتخابات میں کامیابی کے بعد حلف نہ اٹھانے والے ارکان پارلیمنٹ وصوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے سے متعلق نیا قانون متعارف کروایا ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظوری کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے مطابق اگر کوئی بھی منتخب نمائندہ 60 دن میں حلف نہ اٹھائے تو اسکی نشست خالی تصور ہو گی اور اس پر ضمنی انتخاب کروایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن ایسے منتخب نمائندے کو فوری ڈی نوٹیفائی کرے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور ہونے کے بعد مسلم لیگ( ن) کے اسحاق ڈارکی سینیٹ اور چوہدری نثار کی پنجاب اسمبلی کی رکنیت ختم ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ نون لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون خصوصی طور پر سینیٹر اسحاق ڈار کو فارغ کروانے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے جس کی زد میں چوہدری نثار علی خان بھی آ جائیں گے۔
اب حکومت کی جانب سے ایسے اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کی فہرستوں کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے جنہوں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔ ان فہرستوں کو ضروری کاروائی کے بعد الیکشن کمیشن کو بجھوایا جائے گا تاکہ ایسے اراکین کی نشستوں کو خالی قراردے کر ان پر دوبارہ انتخاب کروایا جاسکے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ن لیگ حکومت کو اتنی آسانی سے اپنی جیتی ہوئی سیٹیں کیسے دے سکتی ہے؟ واضح رہے کہ کسی بھی منتخب رکن پارلیمنٹ کے لیے حلف اٹھانے کی مدد کے حوالے سے آئین خاموش ہے لہذا اس ضمن میں قانون سازی کے لئے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نوتیفیکیکشن جاری کردیا گیا ہے جس کی زد ن لیگ پر پڑے گی کیونکہ اس قانون کے تحت سینٹر اسحاق ڈار کو ڈی سیٹ کردیا جائے گا اور ساقب لیگ رہنما نثار علی خان کی پنجاب اسمبلی کی نشست بھی خالی ہوجائے گی۔ دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف منتخب رکن پارلیمنٹ کے حلف اٹھانے کی مدت کے تعین کے حوالے سے قانون سازی کے لئے صدارتی آرڈیننس لانے میں کامیاب تو ہو گئی ہے لیکن اب ایک نئی سیاسی جنگ شروع ہونے کا امکان ہے کیونکہ نون لیگ اتنی آسانی سے اسحاق ڈار اور نثار علی خان کی سیٹیں تحریک انصاف کے پاس جانے نہیں دے گی۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار خان نے نواز شریف کی جارحانہ پارٹی پالیسی اور مریم نواز سے اختلافات کے بعد آزاد حیثیت میں انتخابات 2018ء میں حصہ لیا تھا۔ نثار اور مسلم لیگ نون کی قیادت میں تین سال قبل اس وقت دوری پیدا ہوئی جب وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ اسکینڈل میں نااہل کیا گیا اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف سیاسی طور پر متحرک ہوکر ن لیگ میں چھا گئیں۔ نثار علی خان نے نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کی سخت مخالفت کی اور ساتھ ہی یہ واضح اعلان کیا کہ وہ کسی صورت مریم نواز کی قیادت میں کام نہیں کر سکتے۔
چودھری نثار علی خان پارٹی قیادت سے اختلافات کے بعد اپنے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے تھے۔ نثار نے انتخابات 2018ء میں چار نشستوں سے حصہ لیا جس میں دو نشستیں قومی اسمبلی جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی تھیں۔ لیکن ان کو قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 59 اور این اے 63 سے اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی پی 12 سے شکست کا سامنا ہوا، جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 10 سے نثار کامیاب قرار پائے۔ تاہم انہوں نے بطور رکن پنجاب اسمبلی ابھی تک حلف نہیں اُٹھایا اور نہ ہی اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حصہ لیا ہے۔
اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری نثار کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا حلف نہ اٹھانے کیخلاف کیس جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی متفرق درخواست منظور کرتے ہوئے ہائیکورٹ آفس کو کیس کو سماعت کے لیے شیڈول کے تحت لگانے کی ہدایت کی تھی۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ منتخب نمائندوں کا حلف نہ اٹھانا عوامی نمائندگی قانون کے خلاف ہے اور یہ اقدام آرٹیکل 2 اے 17 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انکا موقف تھا کہ نثار نے حلف نہ اٹھاکر ووٹرز کی تذلیل کی ہے اور پنجاب اسمبلی میں انکا حلقہ نمائندگی سے محروم ہوچکا ہے۔ لہذٰا عدالت سے استدعا کی گئی کہ نثار کی کامیابی کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم جاری کیا جائے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار نے بھی خودساختہ جلاوطنی کے سبب حلف نہیں اٹھایا۔ یاد رہے کہ دسر 2018 میں پنجاب سے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے مگر تین سال گزرنے کے باوجود انہوں نے اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا اور نیب مقدمات کی وجہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ گذشتہ دنوں سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں بھی ہوتی رہیں کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی سے شکست کھانے والے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی وزارت بچانے کے لیے اب ن لیگ کے سینیٹر اسحاق ڈار کو ڈی سیٹ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جگہ پنجاب سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر حفیظ شیخ کو منتخب کروایا جائے۔ تاہم ڈی سیٹ کروانے کا قانون متعارف کروانے سے پہلے ہی حفیظ شیخ کو گھر بجوادیا گیا ہے۔ بہرحال الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے بعد ان دونوں سیاسی شخصیات کی نشستوں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹی فائی کرنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button