اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی چھٹی کیوں ہونے والی ہے؟
شدت پسند یہودی رہنما، اعتدال پسندی کے دعویدار اسرائیلی رہنما اور اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر عرب رہنما کے اتحاد نے مسلسل 12 برس اور مجموعی طور پر 15 برس اسرائیل کے وزیرِاعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے تقریباً بے دخل کردیا ہے اور اگر نیتن کی کوئی چال کارگر نہ ہوئی تو 7 جون 2021 کو اسرائیلی پارلیمنٹ کے اجلاس میں نیا وزیرِاعظم اعتماد کا ووٹ لے گا۔ اس سیاسی ڈرامے کو نئے اتحاد نے ‘تبدیلی کی حکومت’ کا نام دیا ہے جبکہ بنجمن نیتن یاہو نے اسے ‘صدی کا سب سے بڑا فراڈ’ پکارا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کی سیاست میں یہ ڈرامائی تبدیلی ہے، جس کا سہرا بنجمن نیتن یاہو کے سابق چیف آف اسٹاف کے سر ہے، جسے انہوں نے نکال باہر کیا تھا۔ دائیں بازو کے نفتالی بینیٹ کی جماعت یمینا، جس کا مطلب ہی دایاں بازو ہے، 2019ء کے الیکشن میں ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں ہوپائی تھی، مگر 2 سال بعد اب یہی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ نفتالی بینیٹ نے اعتدال پسند کہلوانے والے یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد کے ساتھ بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے نکالنے کے لیے معاہدہ کیا اور حیران کن طور پر پہلی بار اسرائیلی حکمران اتحاد میں عرب جماعت کے سربراہ منصور عباس کو بھی شامل کیا گیا کیونکہ ان کے ووٹوں کے بغیر سادہ اکثریت ممکن نہیں تھی۔ اب اگر اس معاہدے کے تحت حکومت قائم ہوتی ہے تو نفتالی بینیٹ 2 سال کے لیے وزیرِاعظم بن جائیں گے اور معاہدے کے مطابق اگلے 2 سال یائر لبید وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں گے۔ یہ اتحاد صرف اس لیے ڈرامائی نہیں کہ اس میں ایک اعتدال پسند، ایک شدت پسند اور ایک مسلم لیڈر شامل ہیں بلکہ یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کار آصف شاہد کے مطابق نفتالی بینیٹ دراصل نیتن یاہو سے بھی زیادہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، وہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے بُرے القابات کے لیے بدنام ہیں بلکہ وہ مغربی کنارے کا تمام علاقہ اسرائیل میں ضم کرنے کے حامی بھی ہیں۔ نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں 30 نشستیں حاصل کیں جبکہ نفتالی بینیٹ کی جماعت کو صرف 7 پر کامیابی ملی لیکن نفتالی کنگ میکر بن کر ابھرے۔ نیتن یاہو اور ان کے بڑے حریف یائر لبید کو حکومت بنانے کے لیے نفتالی بینیٹ کی حمایت درکار تھی۔ یوں نفتالی بینیٹ جو اسرائیل کی سیاست میں ایک سپورٹنگ ایکٹر تھے، اب ایک بڑے کھلاڑی بن گئے۔
دراصل اس اتحاد کی وجہ بھی نیتن یاہو ہیں اور اس کی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار بھی آنے والے دنوں میں نیتن یاہو کی پالیسیوں پر ہے۔ کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ اتحاد نیتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے بنا ہے، جب تک نیتن یاہو سیاست میں ہیں یہ اقتدار قائم رہے گا، جب بھی نیتن یاہو سیاست سے الگ ہوئے یا لیکود پارٹی نے قیادت بدلی یہ اتحاد بھی دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔
کوئی بھی ملک جو بہترین گورننس چاہتا ہو، اس میں نیتن یاہو جیسے وزیرِاعظم کو ہٹانا واقعی ایک بڑا مقصد لگتا ہے اور نیتن یاہو کی حکومت ایک عرصے سے اپنی کارکردگی کے بجائے طاقت، جبر اور کرپشن کے زور پر قائم تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیتن یاہو کو ہٹانے کے لیے اکٹھے ہونے والے سیاستدانوں کا مقصد ملکی مفاد نہیں بلکہ ذاتی ایجنڈا ہے۔
لیکن اعتماد کے ووٹ سے پہلے بھی کوئی بڑی سیاسی تبدیلی یا دھماکہ ممکن ہے کیونکہ بنجمن نیتن یاہو نے ابھی ہار نہیں مانی اور لیکود پارٹی پارلیمنٹ میں نئے اتحاد کی صرف ایک ووٹ کی برتری ختم کرنے کی کوشش میں لگی ہے، یعنی ایک بھی ووٹ اِدھر اُدھر ہونے پر حکومت سازی ممکن نہیں ہوگی۔ بنجمن نیتن یاہو چند ارکانِ پارلیمنٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس 8 جماعتی اتحاد کے 61 ارکان کو اعتماد کے ووٹ تک اکٹھا رکھنا بھی ایک مشکل ٹاسک ہے کیونکہ نیتن یاہو سیاست کے جادوگر ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو یمینا کی رکن پارلیمنٹ ایلات شکد سمیت 5 ارکان کو توڑنے پر کام کر رہے ہیں۔ ایلات شکد ان کی کابینہ میں وزیرِ انصاف بھی رہ چکی ہیں، اور ان پانچوں ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج شروع کیا جاچکا ہے۔ کئی مذہبی رہنماؤں کا دباؤ بھی موجود ہے اور ان ارکان کو پُرکشش پیشکشیں بھی کی جا رہی ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو نئے اتحاد کی حکومت کی تشکیل روکنے میں ناکام رہے تب بھی وہ اپوزیشن لیڈر رہیں گے اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح منظرنامے سے غائب نہیں ہوں گے۔ نیتن یاہو بطور اپوزیشن لیڈر ایک ہی مشن پر ہوں گے اور وہ مشن ہے اس نئی حکومت اور اتحاد کی سانسیں کم سے کم کرنا۔ نیتن یاہو کے پیروکار سابق امریکی صدر ٹرمپ کے پیروکاروں سے زیادہ شدت پسند ہیں اور انہوں نے ابھی سے نفرت اور خوف پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے۔ نیتن یاہو نے خود کہا کہ نئی حکومت اسرائیل اور اس کے فوجیوں کے لیے حقیقی خطرہ ہوگی۔ نیتن یاہو اپوزیشن لیڈر بن کر نئے حکومتی اتحاد کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتے ہیں۔ نیا اتحاد متضاد نظریات کی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اس اتحاد میں ہر جماعت ہر ایشو پر الگ مؤقف رکھتی ہے خواہ وہ فلسطین کی زمین پر اسرائیل کی نئی بستیوں کا معاملہ ہو، عدالتی معاملہ ہو، امیگریشن یا نظامِ تعلیم سے جڑے معاملات ہوں۔ کسی اہم ایشو پر اختلاف پنڈورا باکس کو کھول سکتا ہے اور نیتن یاہو مختصر عرصے میں اس حکومتی اتحاد کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس موساد پر نیتن یاہو کی گرفت مضبوط ہے اور حال ہی میں انہوں نے موساد کا نیا چیف مقرر کیا ہے لیکن فوج اور اندرونی سیکیورٹی کے ادارے شاباک پر ان کا اثر کم ہے۔ 2019ء میں ستمبر کے الیکشن سے پہلے نیتن یاہو غزہ پر جنگ مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت بھی فوجی سربراہوں نے ان کی چلنے نہ دی۔ اس سال کی جنگ کے دوران وزیرِ دفاع بینی گانتز تھے اور نئی حکومت میں وہی اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نیتن یاہو کے طویل اقتدار کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اسرائیلی عوام انہیں پیار کرتے تھے بلکہ قوم تقسیم تھی اوراقلیت ہونے کے باوجود وہ حکومتیں بناتے رہے۔ نیتن یاہو نے نفرت، خوف اور بے وفائی کی داستانیں چھوڑی ہیں اور نئی حکومت کو سیاسی منظرنامے پر ملبے کا ڈھیر ملا ہے جسے صاف کرنا اس کمزور حکومتی اتحاد کے لیے ممکن نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم ہے، امیر غریب کی تقسیم، سیکولر اور مذہبی کی تقسیم، فلسطینی اور یہودی کی تقسیم، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم۔ نئی حکومت اس تقسیم کو پاٹنے کے بجائے مزید گہرا کردے گی۔