حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اب کیا گڑبڑ چل رہی ہے؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان سب اچھا نہیں ہے حالانکہ تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ دونوں کے معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ درحقیقت حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین قربت اور تعاون ہر سطح پر ختم ہو چکا ہے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر شک بڑھتا جا رہا ہے۔
اپنے سیاسی تجزیے میں فہد حسین کہتے ہیں کہ سردی کے موسم میں جاری جنگ گرمی پکڑ رہی ہے۔ دسمبر شروع ہوتے ہی جہاں اسلام آباد کے درجۂ حرارت میں کمی آ رہی ہے، وہیں سیاسی سکیل پر تھرما میٹر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں دکھا رہا ہے۔ بقول فہد حسین، ملکی عدم استحکام کی موجودہ صورت حال پانچ مختلف محاذوں پر چلتی لڑائیوں کی شدت سے جانچی جا سکتی ہے۔ پہلی لڑائی تحریک انصاف بمقابلہ الیکشن کمیشن چل رہی ہے جو ایک مرتبہ پھر شدت پکڑ رہی ہے کیونکہ تحریکِ انصاف کا اصرار ہے کہ الیکشن کمیشن آنے والے ضمنی اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال یقینی بنائے۔ اب پنجاب حکومت بھی اس میں کود پڑی ہے اور ہوا میں مکے گھماتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کہہ رہی ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات میں EVM کا استعمال لازمی ہونا چاہیے۔ لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ EVM کے قانون پر عجلت میں فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جواب میں حکومت نے دھمکی دی ہے کہ اس کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں الیکشن کمیشن کی فنڈنگ روک دے جائے گی۔ یہ دھمکی اختلاف کو ایک نئی نہج پر لے جا چکی ہے۔ لیکن ریڈ زون میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا اپنے مؤقف سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
فہد حسین کہتے ہیں کہ دوسری جنگ تحریکِ انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم چل رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اپنی ریلیوں، عوامی احتجاج اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ جیسے کلیدی فیصلے بھی دسمبر میں کرنے جا رہا ہے۔ تاہم، پی ڈی ایم کی جانب سے کمزور عوامی احتجاج کے باعث تاحال پی ٹی آئی حکومت کا اس لڑائی میں پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اب تک پی ڈی ایم نے باتیں تو بہت بڑی بڑی کی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کر نہیں پائی۔ فیصلہ سازی میں کمزوری بھی ثابت کرتی ہے کہ اپوزیشن اتحاد اپنے مستقبل کے لائحۂ عمل کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے علیحدہ ہونے سے یہ اتحاد کمزور ہوا ہے، گو اس کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلے کہ مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کی کمزوری کی ایک اور وجہ مسلم لیگ ن کے ایک بڑے حصے کی جانب سے بے دلی سے دیا گیا ساتھ بھی ہے۔ پارٹی میں موجود عملیت پسند دھڑے کو پی ڈی ایم رہنماؤں کے جارحانہ انداز سے اختلاف ہے اور وہ موجودہ حکومت کو نکالنے کی کوئی ایسی راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ پر براہِ راست حملے نہ کیے جائیں۔ اس غیر فیصلہ کن انداز نے اتحاد کو کمزور کیا ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن خود کو وزیر اعظم عمران خان کا متبادل ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فہد حسین کے مطابق تیسری لڑائی تحریکِ انصاف بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ جاری ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے بیچ سب ٹھیک نہیں حالانکہ تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں تناؤ کی ہئیت غیر محسوس انداز میں تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے ایک آمنے سامنے نظر آتی لڑائی اب سرد جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن حکومت کیلیئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی قربت، تعاون اور حمایت ہر سطح پر ختم ہو چکی ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر شک کیا جا رہا ہے۔ اگر PDM نے دسمبر میں درجۂ حرارت کو بڑھایا تو سیاسی صورتحال سے یہ بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ PTI میں کئی لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ اس خلیج کو بھرا جائے اور حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تعلق دوبارہ جوڑا جائے۔ ایک طاقتور ترین حکومتی شخص سے حال ہی میں ملاقات کرنے والے ایک اہم آدمی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی سینیئر لیڈرشپ مسلسل اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کے ارادے غلط نہیں تھے۔ تاہم، فی الحال یہ محاذ کھلا ہوا ہے، پر قدرے خاموش ہے۔
فہد حسین کے مطابق اس وقت چوتھی جنگ مسلم لیگ ن بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ چل رہی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں مسلم لیگ نواز نے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا تنازع سلجھ رہا ہے۔ لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اختلافات بہت گہرے ہیں اور پارٹی میں موجود اندرونی اختلافات اس عمل کو بے سود بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف کے آغاز پر مسلم لیگ ن نے بہترین سنگلز دیے تھے جس سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہونے میں مدد ملتی۔ تاہم، اس کے بعد کے اقدامات، مثلاً ثاقب نثار کی آڈیو لیک وغیرہ، نے ان کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیا۔ الفاظ کی جنگ بھلے کسی حد تک بند ہو گئی ہو لیکن ارادے اب بھی وہی ہیں۔ پارٹی میں موجود عملیت پسند سیاست دان سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہت بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے سے محض اس لئے ناکام ہو جائیں گے کہ پارٹی لیڈرشپ خود کو بدلی ہوئی صورت حال کے مطابق ڈھالنے سے قاصر ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے اور محاذ کھلا ہے۔
فہد حسین کے مطابق پانچویں لڑائی ن لیگ بمقابلہ پیپلز پارٹی چل رہی ہے۔ رواں ہفتے پشاور میں جلسے کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے بغیر نام لیے مسلم لیگ ن پر بھی گولہ باری کی۔ لاہور کے ضمنی انتخاب کی مہم کے دوران بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی ہے۔ ووٹ خریدے جانے کی ویڈیوز لفظی جنگ کو نئی سطح پر لے گئی ہیں۔ اس کی وجہ دراصل وہ بداعتمادی ہے جو دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ ایک دوسرے پر رکھتی ہے، گو کہ یہ پی ڈی ایم کے ابتدائی دنوں میں کچھ پردے کے پیچھے چلی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں شروع ہوئی لڑائی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس کے لئے ن لیگ کو مسلسل کہہ رہی ہے کہ وہ طریقے سے سیاست کرے۔ اسٹیبشلمنٹ کے قریبی لوگ سمجھتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں پیپلز پارٹی کا تاثر بہتر ہوا ہے۔ نتیجتاً مسلم لیگ ن کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خواب ہو گئے ہیں کیونکہ ن لیگ کا جارح مزاج گروپ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی اب اپنے طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے ن لیگ کی قیمت پر انتخابات میں اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے۔ یہ محاذ بھی کھلا ہے اور کسی بھی وقت گرم ہو سکتا ہے۔

Back to top button