طالبان کی یقین دہانی پر اعتماد ہے

پاک فوج نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کی یقین دہانی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور ’ہمیں ان پر اعتماد‘ ہے۔

راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز میں جمعے کو میڈیا بریفنگ کے دوران میجر جنرل بابر افتخار نے افغانستان کی حالیہ صورت حال، پاکستانی فوج کی جانب سے اٹھائے گئے سکیورٹی اقدامات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال پر روشنی ڈالی اور صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیے۔

بریفنگ کے دوران اس سوال کے جواب میں کہ اگر کابل میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد طالبان نے پاکستانی طالبان کے خلاف ایکشن نہیں لیا تو پاکستانی حکومت کا کیا ردعمل ہوگا؟ ترجمان پاکستانی فوج نے جواب دیا کہ ہم پچھلی افغان حکومت کو بھی مطلع کرتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے وہاں محفوظ ٹھکانے ہیں جو وہ پاکستان کے خلاف استمال کرتے ہیں لیکن طالبان قیادت ہمیں بتا چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سلسلے میں موثر اقدامات کریں گے کہ ٹی ٹی پی پاکستان یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہوسکے۔ ہمیں اس سلسلے میں ان پر اعتماد ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے ہی ان (ٹی ٹی پی) کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں، اس لیے وہ وہاں (افغانستان) سے کارروائیاں کرتے ہیں کیونکہ وہ یہاں سے یہ کام نہیں کرسکتے۔‘نیوز بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا کہ داسو ہائیڈرو پراجکٹ اور لاہور میں ہونے والے دھماکوں کی افغانستان سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور وہیں سے ان پر عمل کیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان کی خفیہ ایجنسی (این ڈی ایس) اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے گٹھ جوڑ کا الزام لگایا جاتا ہے، تاہم کابل میں اشرف غنی کی حکومت گرنے کے بعد اس گٹھ جوڑ کے حوالے سے خطرات اور نئی افغان انٹیلی جنس کے ساتھ پاکستانی انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ابھی ہمیں نئی افغان حکومت کے بننے کاانتظار کرنا ہوگا، تاہم انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت افغان حکومت تک یہ بات پہنچاتی رہی ہے، لیکن این ڈی ایس صرف را کی مدد کر رہی تھی، تاکہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکیں۔‘

نیوز بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ’پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سب سے طویل بارڈر ہے، ان کی تمام لاجسٹکس یہاں سے جاتی ہیں، انہیں ہم سے بہتر تعلقات رکھنے چاہیے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔‘

افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول نئی حکومت اور فوج کے حوالے سے سوال کے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’ابھی افغان طالبان نے حکومت بنانی ہے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ وہ فوج کیسی بناتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے رہنمائی کی ضرورت ہوئی تو ضرور فراہم کی جائے گی۔‘

بشکریہ :انڈیپنڈنٹ نیوز

Back to top button