اعجاز شاہ اپوزیشن کو قتل کی دھمکیاں کس کے کہنے پر دے رہا ہے؟


امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قاتل شیخ عمر کو پناہ دینے والے داغدار پروفیشنل کیریئر کے حامل وفاقی وزیر داخلہ بریگڈیئر (ر) اعجاز شاہ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لیکر چلنے والے سیاسی قائدین کو قتل کی کھلی دھمکی دینے کی ہر جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔
گذشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے بارے میں پارلیمان میں دیے گئے بیان اور اس کے جواب میں وفاقی وزیر سائنس کے بیان پر اٹھنے والا طوفان ابھی تھما نہیں تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ بریگڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایسا بیان دے دیا جس پر اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ اعجاز شاہ نے مسلم لیگ ن کے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی بیانیے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت پر قاتلانہ حملے دراصل ان کے دہشت گردی کے خلاف بیانات پر طالبان کے ردعمل کا نتیجہ تھے، اسی وجہ سے بلور خاندان اور میاں افتخار کے بیٹے کو قتل کیا گیا۔ وزیر موصوف نے کھلے الفاظ میں کہا کہ آج جو لوگ مسلم لیگ ن کے بیانیے کے ساتھ ہیں انکی جانوں کو بھی خطرہ ہے اور انہیں اپنا بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو کوئی بھی اپنے فوج کے خلاف بات کرتا ہے اسے سرحد کے پاس امرتسر چھوڑ آنا چاہیے۔ تاہم اپوزیشن حلقوں نے اعجاز شاہ کے اس بیان کو کھلی دھمکی گردانتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کرکے ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا جائے۔
اس حوالے سے اے این پی کی رہنما ثمر ہارون بلور کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کی تقریر سن کر انھیں انتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔ان کا کہنا تھا ایک ایسی پارٹی جن کے ہزراوں کارکنان، ان کے بچوں، اور خاندانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اس پارٹی کے شہدا کے بارے میں اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات سے ہم سب کا بہت دل دکھا ہے۔ ثمر بلور کا کہنا تھا کہ وہ اعجاز شاہ کو بتانا چاہتی ہیں کہ بشیر بلور کو فوج کی جانب سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے، اسی طرح میاں افتخار اور افضل خان لالہ کو نوازا گیا ہے اور ہارون بلور کے لیے یومِ دفاع کی تقریب میں خاص طور پر ہمارے خاندان کو مدعو کیا گیا۔ان کا کہنا تھا ہمارے بیشتر لوگوں کی قربانیوں کو فوج نے سراہا ہے لیکن شاہ جیسے داغدار کیریئر کے حامل لوگ شر کا عنصر پھیلا رہے ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ عمران خان فی الفور اعجاز کو وزیرِ داخلہ کے عہدے سے برطرف کریں۔
سوشل میڈیا صارفین نے وفاقی وزیر کی جانب سے اس بیان کو کھلی دھمکی قرار دیا۔ صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ بلور خاندان کا قتل طالبان کا ردعمل ہے ، نون لیگ کا بیانیہ بھی وہی ہے ۔۔۔ وزیرِداخلہ اعجاز شاہ کا بیان ۔۔۔ اس بیان کے کیا معنی لیے جائیں؟عمر زمان خان نے لکھا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان پر ازخود کارروائی کریں اور انھیں عدالت میں لایا جائے۔ احمد نامی صارف نے لکھا کہ بجائے انڈیا اور ابھی نندن کو سبق سکھانے کے اپنے عوام کو طالبان کے ہاتھوں مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی یہ پاکستان کا وزیر داخلہ ہے یا دشمن ملک کا؟ مزمل پانیزئی نے لکھا کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت اور کارکنوں کو دھمکی دے رہے ہیں جبکہ انھوں نے یہ بتایا ہے کہ اے این پی کی قیادت نے اپنے خاندان کے افراد کو کیسے کھویا۔ نہیں معلوم ہم کس قسم کی ریاست میں رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کا کیرئر انتہائی داغدار ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ضیا الدین بٹ کے بقول اعجاز شاہ ان کے ماتحت ہونے کے باوجود آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ان کی اور وزیراعظم نواز شریف کی مخبری کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرف کو نواز شریف کی جانب سے آرمی چیف لگانے کی پیشگی اطلاع بھی اعجاز شاہ نے دی تھی جس کے بعد انہوں نے کاؤنٹر کو کا منصوبہ تیار کیا۔
اسی طرح سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اکتوبر 2007 میں خود پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں بریگیڈئر اعجاز شاہ کو مرکزی ملزم کے طور پر نامزد کیا تھا۔ اعجاز شاہ کا داغدار کیریئر بتاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ چاپلوسی اور سازشوں کے ذریعے عہدے حاصل کئے اور جس کے ساتھ بھی چلے اس کو ہمیشہ مروایا ہی ہے۔ خیال رہے کہ 12 اکتوبر کے فوری بعد بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی فوجی ملازمت ختم ہونے پر مشرف نے ان کی سابق خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب میں ہی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کردیا گیا تھا۔ یہاں تعیناتی کے دوران اعجازشاہ نے نومبر 2003 تک القاعدہ، لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اور جیش محمد جیسی کم وبیش پندرہ جماعتوں کے خلاف کریک ڈاون کی نگرانی بھی کی۔ اس عمل میں اعجازشاہ پر ان جماعتوں کے بعض رہنماوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے الزامات بھی لگے ۔ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے جنوری 2002 میں اغوا کے بعد بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجازشاہ اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں آئے کہ جب فروری 2002 میں برطانوی نژاد پاکستانی جہادی شیخ احمد عمرسید ان کی لاہور کی رہائش گاہ سے برآمد ہوا۔ اعجازشاہ کے بقول کیونکہ وہ ماضی میں آئی ایس آئی میں اس کے ہینڈلر رہے تھے اس لئے وہ گرفتاری دینے ان کے پاس چلا آیا۔
خیال رہے کہ احمد عمرسعید شیخ کے ننیھال کا تعلق اعجاز شاہ کے آبائی علاقے ننکانہ صاحب سے ہے۔ عمر سعید شیخ کے ماموں اس وقت پنجاب میں ہی جج تعینات تھے۔ اس وقت تک عمرسعید شیخ کے اہل خانہ بھی پکڑ لیے گئے تھے اس لیے عمر شیخ نے اپنے ماموں کے ذریعے اعجازشاہ سے رابطہ کیا اور گرفتاری دی۔
بعد ازاں اعجاز شاہ نے مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے ساتھ مل کر مسلم لیگ ق بنوائی۔ 2002 کے انتخابات میں ق لیگ کو مرکز اور پنجاب میں کامیاب کروایا گیا۔ ملک کی سب سے بڑی سویلین خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کا سربراہ لگنے کے بعد اعجاز شاہ ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔ وہ پرویز مشرف کے قریبی ترین آئی بی چیف سمجھے جاتے تھے۔ ظفراللہ جمالی کے بعد مختصرعرصے کے لیے چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو اعجازشاہ بدستور صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کو رپورٹ کرتے رہے۔ ان کے دور میں آئی بی متحرک ادارے کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہ اعجاز شاہ کا دورہی تھا کہ جس میں آئی بی کی مختلف غیر ممالک میں پوسٹنگز کو آئی ایس آئی کے حق میں دستبردار کردیا گیا جس سے آئی بی کو بڑا نقصان ہوا۔پرویز مشرف کی تنزلی کا آغاز ان کی طرف سے 9 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد برطرف کرنے سے ہوا۔ اس ملاقات میں اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی جی ملٹری انٹیلیجینس میجر جنرل اعجاز ندیم میاں اور آئی بی چیف بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجازشاہ بھی موجود تھے۔ یہ وہی گھڑی تھی کہ جب ہر آنے والا دن مشرف کے اقتدار پر ان کی گرفت کمزور سے کمزور کرتا گیا۔ اعجاز شاہ نے بعد میں عدالت میں دیگر افراد کے ساتھ مشرف کے حق میں اپنا بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا۔ پرویز مشرف نے اپنے کمزور ہوتے اقتدار کو بچانے کے لیے بے نظیر بھٹو سے مذاکرات کیے تو انھی دنوں بے نظیر بھٹو نے کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی مبینہ دھمکیوں کے پیش نظر ایک خط میں دیگر افراد کے ساتھ بریگیڈئیراعجاز شاہ کا نام بھی ممکنہ قاتلوں کی فہرست میں لکھا۔ ظاہر ہے یہ بات اعجازشاہ کے لیے انتہائی ناگوار تھی۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں دھشتگردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایک بار پھر بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ کا نام جنرل حمید گل، پرویز الہی اور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بے نظیر کی طرف سے لکھے گئے خط کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنا رہا۔عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح ہوئی تو اعجاز شاہ نے بطور آئی بی چیف مارچ 2008 میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ تاہم بے نظیر کے قتل کا معاملہ میڈیا بدستور اٹھاتا رہا۔ پولیس یا ایف آئی اے نے کبھی اعجاز شاہ سمیت باقی نامزد افراد کو باضابطہ طورپر شامل تفتیش نہیں کیا۔ تاہم بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے قائم اقوام متحدہ کے کمیشن میں اعجازشاہ اور دیگر افراد کو اس قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
سال 2018 کے عام انتخابات کے دوران اعجاز شاہ ننکانہ سے ایم این اے بنے تو ابتدا میں وہ وزارت داخلہ کے امیدوار تھے لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی کہ جب تحریک انصاف کی پہلی کابینہ میں انکا نام بھی موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں اعجازشاہ کو قومی سلامتی کا مشیر لگانے کا اعلان بھی کیا مگر بوجوہ اس کا نوٹیفیکیشن نہ ہو سکا اور آخر کار انھیں وفاقی وزیر پارلیمانی امور لگا دیا گیا جس کے چند ماہ بعد انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا۔ تاہم اعجاز شاہ ملک کے اہم داخلی امور سے متعلق معاملات کی بجائے کسی اور دھن میں مگن نظر آتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سےنہ لڑتے تو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن جاتے اور کبھی کہتے ہیں کہ فوج مخالف سیاسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوسکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح انہوں نے پورے کیریئر بھی عزت کمانے کی بجائے سازشیں کر کے عہدے حاصل کئے ہیں، عمر کے اس حصے میں بھی یہ اپنی فطرت سے باز نہیں آرہے اور لگتا ہے کہ اعجاز شاہ اب اپنی حرکتوں کے سبب کپتان حکومت کو گھر بھجوانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button