پنجاب اور کے پی میں الیکشن کروانا مشکل کیوں ہوگیا؟

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے قریباً دو ماہ گزر چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ابھی الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے تاہم پنجاب میں الیکشن شیڈول جاری ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات وقت پر کروائے جانے کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ایک جانب پاکستان تحریک انصاف ’آئین کے مطابق‘ وقت پر انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے وزرا اب بھی پورے ملک میں ایک ساتھ عام انتخابات کے انعقاد کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ آئینی طور پر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر صوبائی انتخابات کا انعقاد ہونا ہوتا ہے تاہم اس عمل میں تاخیر کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور انتخابات ’آئینی مدت‘ کے مطابق کروانے کا حکم دیا جس کے تحت الیکشن کمیشن نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کو پولنگ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس کے لیے شیڈول کا اجرا بھی 8 مارچ کو کر دیا گیا۔دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی کے شیڈول کا اعلان گورنر اور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے طے ہونا باقی ہے۔
پنجاب کے الیکشن شیڈول کے مطابق 12 مارچ سے امیدواروں کے لیے کاغذات نامزدگی کا اجرا شروع ہو چکا ہے تو وہیں گذشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کی جانب سے الیکشن کے انعقاد کے لیے درکار فنڈز کی کمی جبکہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے امن و امان کو درپیش خدشات کی بابت بریف کیا گیا۔
ایسے میں یہ سوالات گردش کر رہے ہیں کہ آیا سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ کے اعلان کے بعد بھی انتخابات وقت پر ہو پائیں گے اور اگر کسی وجہ سے یہ تاخیر کا شکار ہوئے تو اس کی ذمہ داری کس کے کندھوں پر ہو گی؟تو کیا پاکستان میں امن و امان کے خدشات یا وسائل کی کمی انتخابات میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہے؟کیا انتخابات میں تاخیر کی آئین میں کیا گنجائش ہے اور اگر ایسا ہوا تو کیا اس کی ذمہ داری بھی کسی پرعائد ہو گی؟
سابق سیکریٹری سینیٹ امجد پرویزملک کے مطابق قانون کے مطابق تو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر ہی انتخابات کو ہونا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’وسائل کی کمی یا سکیورٹی کا سہارا انتخابات کو آگے لے جانے کی وجہ نہیں بن سکتے۔‘ان کی رائے میں ’اس ضمن میں واحد سہارا جو لیا جا سکتا ہے وہ بھی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں لاگو نہیں ہوتا بلکہ اسمبلی کا پیریڈ آگے لے جانے کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ اگر ملک میں ایمرجنسی ہے تو قانون کے مطابق اسمبلی کی مدت چھ ماہ بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن یہ سب اسمبلی کے فعال ہونے کے دوران کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے قانون کے مطابق پہلے ایمرجنسی کا نفاذ ہونا ضروری ہے۔
امجد پرویز ملک کے مطابق ’اگر کوئی ادارہ خط لکھ دے کہ فنڈز نہیں یا کوئی اجلاس میں بتائے کہ سکیورٹی کے معاملات درست نہیں تو یہ الیکشن کے ملتوی ہونے کی وجوہات نہیں۔‘ان کے مطابق جو راستہ ماضی میں بھی نکالا جاتا رہا ہے کہ حل تلاش کرنے کے لیے آخر میں سپریم کورٹ جائیں گے تو شاید اس معاملے میں بھی یہی ہو۔
اس وقت الیکشن کمیشن کا پنجاب میں انتخابات کے شیڈول پر عملدر آمد جاری ہے اور سکیورٹی اور فنڈز کی کمی سے متعلق تمام خدشات سامنے آنے کے باوجود الیکشن کمیشن کی تیاریوں جاری ہے اور ایک اہلکار کے مطابق ان تیاریوں کے پیش نظر بظاہرامکان یہی ہے کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو ہی ہوں گے۔تاہم اداروں کی جانب سے خدشات کا اظہار ہو یا کسی بھی وجہ سے شیڈول کے باوجود انتخابات میں رکاوٹ آئی تو کیا اس کی ذمہ داری کسی پر عائد ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر یہ انتخابات اس لیے نہیں ہوتے کہ الیکشن کمیشن نے ان کو قانونی طور پر ملتوی کر دیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس کو قبول کیا تو پھر اس کی ذمہ داری کسی پر نہیں آئے گی کیونکہ ’یہ سب قانونی ہو گا اس لیے ذمہ داری عائد ہونے کا سوال نہیں ہوتا۔‘تاہم ان کے مطابق ’انتخابات کروانے کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’باوجود اس کے کہ الیکشن کمیشن نے اپنا شیڈول نہیں بدلا اور فرض کریں سکیورٹی اور پیسے نہ ملنے یا وسائل کی دستیابی یا کسی بھی وجہ سے الیکشن نہ ہوئے تو پھر بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ الیکشن کمیشن کو بتانا ہو گا کہ وہ وقت پر کیوں الیکشن نہیں کروا سکے۔‘’پھر اس کی ذمہ داری کا تعین ان کے بتانے اور تحقیقات پر ہو گا کہ وہ کیا معاملات تھے جس کی بنیاد پر الیکشن کا انعقاد نہیں ہو پایا۔دوسری جانب سابق سیکرٹری سینیٹ امجد پرویز ملک کے مطابق انتخابات کے بروقت نہ ہونے کی صورت میں ’ہر وہ شخص جس نے آئین پر عمل درآمد کا حلف لیا ہوا ہے، اس پر ذمہ داری عائد ہو گی۔
اس تناظر میں احمد بلال محبوب نے بتایا کہ الیکشن کمیشن معاشی و سیکیورٹی صورتحال کی بنیاد پر الیکشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے۔ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔ وہ چاہیں تو انتخابی شیڈول میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں اور اس کو نئے شیڈول سے مکمل تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔‘’اس کے لیے انھیں صدر مملکت کو اطلاع دینا ہو گی۔ اس کے سوا اس میں کوئی لیمیٹیشنن موجود نہیں۔ تو الیکشن کمیشن اگر ان وجوہات سے مطمئن ہو جائے جو حکومتی اداروں نے ان کے سامنے پیش کی ہیں تو پھر وہ انتخابی شیڈول تبدیل کر سکتا ہے۔‘تاہم الیکشن کمیشن ’اگر ایسا اقدام اٹھاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کو سپریم کورٹ میں چیلینج کر دیا جائے۔ پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی آخری ہو گا تاہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے آئین میں درج مقررہ وقت پر انتخابات نہ ہوں تو قانون میں اس حوالے سے کیا کہا گیا ہے۔
ماہر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے بتایا کہ اس میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 154 یہ کہتی ہے کہ آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔اگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہو اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر ہوتا ہے۔
’رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ کو اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کام میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن کوشش کریں کہ کم سے کم وقت آگے جائے۔۔۔ گویا انھوں نے بات طے کر دی۔بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔