سائفرکی کاپی میرے پاس تھی، پتہ نہیں کہا ں غائب ہوگئی

تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس سے سفارتی سائفر غائب ہونے سے متعلق کہا ہے کہ میرے پاس ایک کاپی تھی وہ غائب ہوئی کہاں گئی مجھے نہیں پتا۔

نجی ٹی وی اے آر وائے کو اںٹرویو کے دوران سائفر کے حوالے سے لیک آڈیوز پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ‘اس کے پیچھے کون ہے اور کیا ہے مجھے حتمی نہیں پتا لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ یہ بہت بڑی سیکیورٹی بریچ ہے، سوچیں کہ وزیراعظم کی محفوظ لائن کی گفتگو عوام میں آئی ہے۔

انہوں نے کہا سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے گفتگو کی لیک ہونے والی آڈیو کے بارے میں کہا کہ میرے خیال میں یہ ٹیلی فون بات ہے، میرا نہیں خیال کمرے میں ہے، دوسری آڈیومیں نے نہیں سنی، اس لیے اس پر بات نہیں کرسکتا، اگر 4 لوگ ہیں بالکل کمرے میں ہوئی ہوگی۔

انکا کہناتھا ٹیلی فون لائن پر شہباز شریف کی طرح وزیراعظم کی کالز لیک ہوجاتی ہیں تو ہماری قومی سلامتی پر سوچیں، ہمارے مخالف ہیں، خیرخواہ نہیں ہیں، جو دشمن ملک ہیں اب یہ وہاں بھی پہنچ جائیں گی،وزیراعظم پرنسپل سیکریٹری یا کسی سے بھی بات کر رہا ہے تو کوئی اور بات بھی ہوسکتی ہے، بڑی کلاسیفائیڈ بات بھی ہوسکتی ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کسی نے سیکیورڈ لائن ریکارڈ کی ہے اور وہ ہیک ہوگئی ہے۔

عمران خان نے کہا ہم اس کے بارے میں نہیں بتایا تھا، 28 مارچ کو خط دکھایا تو ملک کا نام نہیں لیا تھا، جب قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا تو وہاں فیصلہ ہوا کہ امریکا کی مذمت کرنی ہے کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں جارہے ہیں تب ہم نے پبلک کیا، ہماری کابینہ کا آخری اجلاس کے منٹس دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ہم نے اس کو ڈی کلاسیفائی کردیا تھا۔

سابق وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ سائفر کی کاپی کہاں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘اگر تو وہ ڈی کلاسیفائی ہے تو چھاپہ مار کر کیا کرنا ہے، ایک میرے پاس تھا، غائب ہوگیا کہیں ہوگیا مجھے نہیں پتا لیکن ایک صدر پاکستان بطور سربراہ سروسز چیف کے پاس ہے، وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجا ہوا ہے، سائفر کی کاپی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایک ہم نے دفترخارجہ سے لے کر اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا اور اس سے ساری اپوزیشن کو پیش کش کی کہ یہ سائفر ہے یا نہیں کیونکہ یہ انکار کر رہے تھے اور وہ سائفر بھی چیف جسٹس کو بھیجا،سائفر تو دستیاب ہے، ہم نے پبلک اس لیے نہیں کیا کیونکہ اس میں خفیہ کوڈ ہوتا ہے اور پبلک کرتے ہی دفترخارجہ کا کوڈ عام ہوجاتا ہے اس لیے ہم نے نہیں کیا۔

انٹرویو میں انہوں نےآڈیو میں سامنے آنے والی زبان اور کھیلنا سے متعلق سوال پر کہا کہ جب آپ ٹیلی فون پر کسی سے بات کر رہے ہوں تو اصطلاح ہوتی ہے، کہ ہم نے اس سے کس طرح استعمال کرنا ہے کیونکہ ہم نے استعمال تو کرنا تھا۔

یاد رہے کہ 30 ستمبر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی دھمکی کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر مبنی سفارتی سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس سے غائب ہے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کابینہ کو سفارتی سائفر کے معاملے پر بریفنگ دی گئی جہاں ’انکشاف ہوا کہ متعلقہ سفارتی سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاﺅس کے ریکارڈ سے غائب ہے، سابق وزیراعظم کو بھجوائے جانے والے اس سائفر کی وزیراعظم ہاﺅس میں وصولی کے ریکارڈ میں اندراج ہے لیکن اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے، قانون کے مطابق یہ کاپی وزیراعظم ہاﺅس کی ملکیت ہوتی ہے۔

اجلاس کے اعلامیے کے مطابق ’اجلاس نے قرار دیا کہ سفارتی سائفر کی ریکارڈ سے چوری سنگین معاملہ ہے اور تفصیلی مشاورت کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جو تمام ملوث کرداروں سابق وزیراعظم، سابق پرنسپل سیکریٹری، سابق سینئر وزرا کے خلاف قانونی کارروائی کا تعین کرے گی، کابینہ کمیٹی میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ خارجہ، داخلہ اور قانون کے وزرا شامل ہوں گے۔

عمران خان نے وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے سوال پر کہا کہ میرے خلاف 24 ایف آئی آرز ہیں، یہ میرے لیے متوقع تھا کیونکہ ان سب کی سیاست ایسی ہے، میں اس کے لیے تیار تھا، اپنی ٹیم کو بتایا ہوا ہے مجھے کسی بھی وقت گرفتار کرسکتے ہیں، یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں اور یہ الیکشن تب کروانا چاہتے ہیں اگر میں نااہل ہوجاؤں۔

صدرعارف علوی کی موجودگی میں ایوان صدراسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیت سے ملاقات کی خبروں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘جھوٹ مجھ سے بولا نہیں جاتا اور سچ میں بول نہیں سکتا۔

Back to top button