بھارت 5 اگست کے فیصلے پر نظرثانی کرے تو بات چیت کیلئے تیار ہیں

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر بھارت 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات پر نظرِ ثانی کو تیار ہو تو پاکستان بخوشی اختلافات پر بات کرنے اور مذاکرات کے ذریعے دیرینہ مسائل کے حل کےلیے تیار ہوگا۔
وزیر خارجہ نے یہ بات ترکی کے دورے کے موقع پر ترک خبر رساں ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ دیرینہ مسائل ہیں مثلاً کشمیر، سیاچن، سرکریک، پانی اور دیگر معمولی مسائل اور اس پر آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم جنگ کی طرف جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے، آپ جانتے ہیں یہ دونوں کےلیے خودکش ہوگا اور کوئی سمجھدار فرد اس نوعیت کی پالیسی کی حمایت نہیں کرے گا، اس لیے ہمیں مل بیٹھنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے جس نے بات چیت سے فرار اختیار کی اور جامع مذاکرات کو معطل کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کی حالیہ پیشرفت مثبت ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘چنانچہ جب انہوں (بھارتی رہنماؤں) نے دوبارہ عزم میں دلچسپی ظاہر کی تو ہم نے اس کا خیر مقدم کیا جس سے میرے خیال میں تناؤ کم ہوا اور دونوں اطراف کےلیے اچھا رہا اور اِس طرف اور اُس طرف سمجھدار عناصر نے اس نئی پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔ وزیر خارجہ نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم عمران خان کو خیر سگالی پیغام کا حوالہ دیا جس کا پاکستانی وزیر اعظم نے مثبت جواب بھی دیا تھا اور کہا کہ کچھ خیالات ہیں لیکن اس پر کوئی اہم فیصلہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ افغان امن عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس عمل میں خدشات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس لیے بھی خدشات بہت زیادہ ہیں کہ خدا نخواستہ اگر کوئی معاہدہ یا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوتا تو 90 کی دہائی میں واپس جانے کا اندیشہ ہے، افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی کا خطرہ ہمارے سروں کے اوپر منڈلا رہا ہے اوریہ وہ آخری چیز ہوگی جو پاکستان یا کوئی بھی چاہے گا۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے امریکی فیصلے کے بارے میں وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ مذاکرات کے دوران طالبان کا ایک بہت اہم مطالبہ تھا اس لیے فوجی انخلا کے اعلان سے امریکیوں نے اس مطالبے کو پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یقینی طور پر کوشش کریں گے اور ان (طالبان) پر زور دیں گے کہ امن عمل جاری رکھا جائے، جو عمل دوحہ میں شروع ہوا تھا وہ استنبول کانفرنس کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان معاشی سرگرمیوں کےلیے اپنی جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جب کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیا جیسے خشکی میں گھرے ممالک کو بڑا موقع فراہم کر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button