ایران اور اسرائیل کی برسوں پرانی ’خونی دشمنی‘ کی وجہ کیا ہے؟

ہرگزرتے دن کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ شام میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران کے اسرائیل پر براہ راست میزائل حملے نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔خیال رہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے خونیں دشمنی جاری ہے اور جغرافیائی سیاسی عوامل کے نتیجے میں ان کی شدت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ان کے قضیے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔تہران اسرائیل کو امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہ سے ’شیطان کوچک‘ یعنی ’چھوٹا شیطان‘ کہتا ہے جبکہ اس کے لیے امریکہ ’شیطان بزرگ‘ یعنی ’بڑا شیطان‘ ہے۔دوسری جانب اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران ’دہشت گرد‘ گروپوں کی مالی معاونت کرتا ہے اور اس کے مفادات کے خلاف حملے کرتا ہے۔ان ’پرانے دشمنوں‘ کے درمیان کی دشمنی کے نتیجے میں بہت ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اکثر یہ سب پس پردہ کارروائیوں کے طور پر سامنے آیا اور کوئی بھی حکومت ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تاہم غزہ کی جنگ نے حالات کو مزید خراب کیا۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کے اتحادی اسرائیل اور ایران کی دشمنی کیسے شروع ہوئی؟اسرائیل اور ایران کے درمیان تعلقات سنہ 1979 تک کافی خوشگوار ہوا کرتے تھے اگرچہ ایران نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تھی لیکن مصر کے بعد ایران دوسرا اسلامی ملک تھا، جس نے اسے تسلیم کیا تھا۔اس وقت ایران میں بادشاہت تھی اور وہاں پہلوی خاندان کے شاہوں کی حکومت تھی اور وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم اتحادیوں میں شامل تھے۔اسی وجہ سے اسرائیل کے بانی اور اس کے پہلے سربراہ ڈیوڈ بین گورین کی حکومت نے اپنے عرب پڑوسیوں کی طرف سے نئی یہودی ریاست کو مسترد کرنے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سے دوستی کی کوشش کی اور ان کی دوستی حاصل بھی کی۔لیکن سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انقلاب نے شاہ کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی جمہوریہ قائم کی اور اس نے خود کو مظلوموں کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔ نئی حکومت کی شناخت کی ایک اہم علامت میں امریکہ کی مخالفت اور اس کے اتحادی اسرائیل کی ’سامراجیت‘ کو مسترد کرنا شامل تھا۔
نئی آیت اللہ حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے، ان کے شہریوں کے پاسپورٹ کو تسلیم کرنا بند کر دیا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانے پر قبضہ کر کے اسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے حوالے کر دیا۔ ’اسرائیل کے خلاف دشمنی نئی ایرانی حکومت کا ایک ستون تھا کیونکہ اس کے کئی رہنماؤں نے فلسطینیوں کے ساتھ تربیت لی تھی اور انھوں نے لبنان جیسی جگہوں پر فلسطینیوں کے ساتھ گوریلا جنگ میں حصہ لیا تھا اور انھیں ان کے ساتھ بہت ہمدردی تھی۔‘ ’نیا ایران خود کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی مسئلے کو اٹھانا چاہتا تھا جسے عرب مسلم ممالک نے ترک کر دیا تھا۔‘اس طرح تہران میں سرکاری حمایت کے ساتھ بڑے فلسطینی حامی مظاہرے عام ہو گئے۔دوسری طرف اسرائیل میں ایران کے خلاف دشمنی سنہ 1990 کی دہائی تک شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس وقت تک صدام حسین کے عراق کو بڑا علاقائی خطرہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن وقت کے ساتھ اسرائیل نے ایران کو اپنے وجود کے لیے ایک اہم خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا اور دونوں کے درمیان دشمنی زبانی جنگ سے نکل کر حقیقی جنگ تک چلی گئی۔اس طرح تہران کے ساتھ منسلک تنظیموں کا نیٹ ورک پھیل گیا اور انھوں نے ایرانی مفادات کے لیے فوجی کارروائیاں کیں۔ ان میں لبنان سے تعلق رکھنے والی حزب اللہ سب سے نمایاں ہے۔ اس تنظیم کو امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ آج ایرانی ’مزاحمت کا محور‘ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔دوسری جانب اسرائیل بھی خاموش نہیں بیٹھا رہا اور اس نے ایران اور اس کے اتحادیوں پر حملے کیے اور دیگر کارروائیوں کو انجام دیا لیکن انھوں نے ایسا اکثر تیسرے ممالک میں کیا جہاں وہ ایران نواز افواج سے لڑنے والے مسلح گروہوں کی مالی معاونت اور حمایت کرتا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کو ’شیڈو وار‘ کے طور پر بیان کیا گیا کیونکہ دونوں ممالک نے اگرچہ ایک دوسرے پر حملے کیے لیکن انھوں نے بہت سے معاملات میں باضابطہ طور پر ان میں اپنی شرکت کا اعتراف نہیں کیا۔
ایرانی جوہری پروگرام کو ناکام بنانا ہمیشہ سے اسرائیل کے لیے کسی جنون سے کم نہیں رہا تاکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھا جا سکے۔اسرائیل ایران کے اس موقف پر یقین نہیں کرتا کہ اس کا پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے دوسری جانب تہران اپنے جوہری پروگرام کے انچارج کچھ اہم سائنسدانوں کے خلاف حملوں کا الزام بھی اسرائیلی انٹیلیجنس پر لگاتا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے کبھی بھی ایرانی سائنسدانوں کی ہلاکت میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔اسرائیل نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران پر ماضی میں اپنی سرزمین پر ڈرون اور راکٹ حملوں کے پیچھے ہونے کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی ساتھ متعدد سائبر حملے بھی کیے ہیں۔تاہم پہلی دفعہ ایران نے ڈائریکٹ میزائل حملے کر کے اسرائیل کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔