حق رائے دہی اور مقتدر اعلیٰ

تحریر:امتیازعالم۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ 
مظلوم کشمیری تو رائے شماری کو ترستے رہ ہی گئے، پاکستان کے عوام کونسے حق رائے دہی سے (ایک بار کے سوا) فیض یاب ہوپائے جو جمہوریہ بنا پاتے اور اسکے اقتدار اعلیٰ کے مالک بن پاتے؟ نوآبادیاتی غلامی سے حق آزادی ملا بھی تو گہنایا ہوا اور جو بٹوارہ ہوا اس سے ملا بھی تو کرم خوردہ پاکستان اور ہم تکمیل پاکستان کے خوابوں کو پورا کرتے کرتے اکثریتی حصہ (مشرقی پاکستان) گنوا بیٹھے۔ بعداز نوآبادیاتی ریاست تشکیل پائی بھی تو وادی سندھ کی تاریخی جڑوں کو کاٹ کر اور ایک ایسے دیومالائی (Celestial) اور ماورائے طبعیاتی تصور (اُمہ) کی بنیاد پر جسکا تاریخی، زمینی، (Terrestrial)، جغرافیائی و نسلیاتی، فزیکل اور سماجیاتی ساخت سے ناطہ نہ تھا۔ ریاست بیگانہ تو ہوتی ہے (ماں جیسی نہیں۔ صرف دھرتی ماں ہوتی ہے) پر ویسی نہیں جیسی پچ میل ریاست ہم پر مسلط کی گئی۔ یہ ایک غیر نامیاتی بنیاد تھی جس نے تحلیل ہونا ہی تھا اور یہ 1971 میں دو قومی نظریہ کی بنیاد کے باوجود دولخت کردی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ٹوٹی بھی تو اس بنا پر کہ 1970 میں کہیں جاکر پاکستان کے عوام کو ایک طویل جمہوری جدوجہد کے بعد حق رائے دہی ملا۔ اور جب عوام الناس نے حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا تو اکثریتی آبادی کا صوبہ خون آشام جنگ سے گزر کے آزاد ہوگیا۔ بنگالی پن، مسلم پن پہ حاوی ہوگیا۔ ہم نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘! اسلئے کہ ہم باقی ماندہ پاکستان کو اپنے قومی قالب میں ڈھالنے سے منکر رہنے پہ بضد رہے۔ لیکن آمرانہ نیم نو آبادیاتی قوتوں کی شکست کے بعد 1973 کے آئین نے جمہوریہ کی وفاقی بنیاد پر شراکتی قومی ریاستی تشکیل کی۔ چونکہ یہ رائے دہی کی بنیاد پر تشکیل دی گئی، اس لیے زخم خوردہ آمرانہ قوتوں نے پسپائی کے باوجود اسے قبول نہ کیا۔ پھر ہم نے 1977 کا مارشل لا دیکھا اور جمہوریہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی نذر ہوگئی اور مصنفِ آئین سولی پہ چڑھا دیا گیا۔ سماجی ماہر حمزہ علوی نے اسے ریاست کے ”زیادہ ترقی یافتہ ڈھانچے“ کا پرتو قرار دیا، تو تاریخ دان عائشہ جلال نے ”اسٹیٹ آف مارشل رُول“ کے طور پر پیش کیا جبکہ دیگر سماجیاتی و سیاسی ماہرین نے اسے ”چھاؤنی کی ریاست“ سے یا پھر پوسٹ کالونیل اسٹیٹ کی مختلف انواع بیان کی ہیں جنہیں بہرکیف ایک مخاصمانہ فکری یلغار کے طور پر رد کردیا گیا۔ اس متضاد ہیئت والی ریاست کے تضادات فرانسیسی مصنف کرسٹاف جیفر لوٹ اور پاکستانی ماہر سیاسیات ڈاکٹر وسیم نے بڑی سراحت اور بالیدگی کے ساتھ اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔اکثر ہم سندھی، بلوچ، پختون، پنجابی اور ملتانی ادیبوں اور تاریخ دانوں کو اصرار کرتے اور احتجاج کرتے دیکھتے ہیں کہ اُن کے خطوں کا تاریخی وجود 1947 کی پارٹیشن کا مرہون منت نہیں بلکہ ہزار ہا سال کے تاریخی ارتقا کی دین ہے۔ لیکن دھرتی کی تاریخی جڑوں کی تلاش اور اس بنیاد پر ایک نامیاتی قومی ریاست کی تشکیل علمائے کرام کو منظور نہ تھی اور نہ ہی آمرانہ قوتوں کے مفاد میں تھی۔ بس ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب کا روحانی نسخہ ریاستی تشکیل کے کام آیا۔ تو پھر افغان ہوں یا عربی، عجمی یا ترک سبھی اُمہ کا حصہ ہیں تو پھر افغان مہاجرین کو کیوں سرحد کے پار دھکیلا جارہا ہے، وہ بھی تو اسی اُمہ کا حصہ ہیں جسے ہم پاکستان سےخلط ملط کرنے پہ مصر رہتے ہیں۔ جب اُمہ کہیں تنظیم برائے اسلامی کانفرنس (OIC) کے بے وقعت سیکرٹریٹ کی فائلوں میں گم ہو کر رہ گئی تو پھر پاکستان کی قومی ریاست جسکی ٹھوس تاریخی و تہذیبی بنیاد ہے، اس جانب تاریخی رجوع کیوں نہیں؟

قومی ریاست کے تصور کو یورپ میں 1648 کے ویسٹ فیلڈ کے معاہدے سے جوڑا جاتاہے۔ گو کہ اس سے پہلے بھی ان کا وجود تھا لیکن ان کی اتھارٹی رومن کیتھولک چرچ سے بندھی تھی۔ انگلش کامن ویلتھ بھی اسکی صورت تھی۔ تحریک احیائے علوم اور انسانی و شہری حقوق کی جدوجہد، انقلاب فرانس و دیگر انقلابوں نے قومی ریاست کی شرائط طے کیں۔ جو بڑا چیلنج ریاستوں کے سامنے تھا کہ کس طرح ایک جغرافیہ میں رہنے والے مختلف نسلیاتی و قومیتی گروپوں کو قومی ریاست میں مجتمع کیا جائے۔ پاکستان جیسی کثیر القومی اور کثیر الثقافتی ریاست کیلئے جبری انضمام کی بجائے وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا جو بلجیم اور سوئٹزرلینڈ نے اختیار کیا۔ یعنی رضاکارانہ شمولیت اور قومی مساوات کے اصول کی بنیاد پرجمہوری اتفاق رائے سے کثرت کی بنیاد پر اتحاد کا حصول۔ بنیادی حوالے سے قومی ریاست کے تین اجزائے ترکیبی میں عوام، جغرافیہ اور اقتدار اعلیٰ کی قوت شامل ہیں۔ بغیر عوام اور انکے جغرافیہ کے کوئی اقتدار اعلیٰ وجود نہیں رکھتا ماسوائے آسمانی حق ربانی کے۔ اور عوام کسی بھی ریاست کے اقتدار کی تشکیل اپنی آزاد منشا کے جمہوری اظہار سے کرتے ہیں جیسے 1947 میں کی گئی۔ لیکن یہ حق حکمرانی اور حق رائے دہی ایک بار کے استعمال پہ ختم نہیں ہوجاتا۔ ہروقت قومی ریاست کے جسم میں رواں رہتا ہے۔ یہ حق رائے دہی ہے جو عوام کو مقتدر اعلیٰ بناتا ہے جو آزادانہ ووٹ کے استعمال سے اقتدار اعلیٰ اپنے منتخب نمائندوں کو امانتاً تفویض کرتے ہیں اور واپس بھی لے لیتے ہیں۔

پاکستان میں حق رائے دہی پہ نیم نوآبادیاتی آمرانہ نوکر شاہی قوتیں ہمیشہ سے حملہ آور رہی ہیں تاکہ اقتدار اعلیٰ کو غصب کیا جاتا رہے۔ اس کے سدباب کیلئے 1973 کے آئین کا سماجی میثاق کیا گیا۔ جسے توڑنے کا مقصد عوام کی منشا کو کچل کر اسکی جگہ ایک استبدادی مارشل لا، نیم مارشل لا، نیم جمہوری نظام حکومت کو مسلط کیا جاتا رہا۔ 1970 میں حق رائے دہی کے بیباکانہ و آزادانہ اظہار سے آمرانہ بعداز نوآبادیاتی ڈھانچے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے حق رائے دہی کو ہی یرغمال بنا کر ہر انتخاب کو اپنے مفاد میں مثبت نتائج کیلئے استعمال کیا۔ گویا انتخابات کا انعقاد ایک رسمی مجبوری تو تھی جمہوری تقاضا نہیں۔ پاکستان کی اس دہری و متضاد سیاسی معیشت کی بنیاد پر سیاسی بحران ہے کہ بار بار پلٹ کر جمہوری عمل کو یا تو پٹری سے اتار دیتا ہے یا عوامی حکمرانی کو گہنا دیتا ہے۔ ایک طرف آئینی ڈھانچہ اور جمہوری تقاضے دوسری طرف آمرانہ ڈھانچے اور انکی ماورائے آئین حاکمیت۔ یہ تماشہ بار بار چلتا رہا اور ہر بار اپنے نئے ایڈیشن کے ساتھ ناکام ہوتا رہا۔ مسئلہ صرف ایک ہی ہے۔ وہ ہے ریاست کے اخلاقی جواز اور اقتدار اعلیٰ کیلئے عوامی منشا کا حق رائے دہی کے ذریعہ اظہار۔ اسوقت انتخابات کا بگل بج چکا ہے لیکن سارا زور اس پر ہے کہ کسی طرح عوامی منشا کے آزادانہ اظہار کو روکا جاسکے۔ حق رائے دہی کا تقاضاہے کہ ریاست اس کے اظہار کے رستے سے ہٹ جائے اور کسی طرح کی رکاوٹیں پیدا نہ کرے۔ ورنہ ایک جعلی الیکشن کے ذریعہ سے عوامی منشا کی مہر لگنے سے رہی جس کے نتائج بھی مشکوک ہونگے اور اس بنیاد پر بننے والی حکومت بھی عوامی اخلاقی جواز سے محروم رہے گی۔ سیاسی بحران کی وجہ بھی یہی ہے اور اسکا حل بھی آزادانہ و منصفانہ و شفاف انتخابات ہیں۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں!

Back to top button