حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں بری طرح پھنس گئے

افغانستان کی موجودہ غیر یقینی صورتحال اور امریکا کے ساتھ کڑوے تعلقات کے تناظر میں جنرل باجوہ اور انکی اسٹیبلشمینٹ پہلے ہی پریشانیوں کا شکار تھی لیکن وزیراعظم عمران خان کے ساتھ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر پیدا ہونے والے تنازعے نے انکی مشکلات کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ معروف صحافی اور تجزیہ کار اویس توحید اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں کہتے ہیں کہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں اس تنازعے کا شکار ہیں اور لگتا ہے کہ دونوں ہی برے پھنس چکے ہیں۔ صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ اب اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی کے فوجی ہیڈکوارٹرز کے درمیان کا سفر ایک بار پھر ماضی کی طرح کٹھن ہوگیا ہے۔ اویس کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے درمیان لگ بھگ پچیس کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔ کہنے کو تو یہ زیادہ سے زیادہ چالیس، پچاس منٹ کا سفر ہے لیکن اسوقت یہ’ختم ہونے‘ کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی ہو یا بینظیر بھٹو کی، نواز شریف کی حکومت ہو یا زرداری کی، اس فاصلے کو طے کرنا دیو مالائی کہانیوں کی طرح کسی مہم جوئی سے کم نہیں تھا۔ کبھی درمیان میں آگ کا دریا تو کبھی مشکل ترین پہاڑیاں، کبھی تنگ گھاٹیاں تو کبھی درمیان میں تین سر والی بلائیں۔ حکمرانی کی رسہ کشی کسی مہم جوئی سے کم نہ تھی۔
اویس توحید کہتے ہیں کہ ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے، اپنے وجود کو اسی دنگل کے بیچ پایا ہے کہ کون طاقتور ہے اور کون کمزور، کون کس کے تابع ہے، کون حکمرانی کا اصل حق دار ہے، کون ہے سچا محب وطن اور کون ہے غدار؟ نو عمری سے پختہ عمری تک کبھی فوجی حکمرانی تو کبھی جمہوریت، ہم نے اپنے سیاسی شعور کے گرد سیاسی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی رسہ کشی کا پھندا ہی دیکھا۔ چند برس قبل جب عمران خان کی حکمرانی کی باری آئی تو یوں لگا جیسے رسہ کشی کہیں پس منظر میں چلی گئی ہو۔ ایک قالب دو جان، اسٹیبلشمنٹ کے لیے حکومت گویا ان کے بطن کا حصہ ہو۔ عمران خان کے لیے فوج کا ادارہ ملک کا منظم ترین ادارہ اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی اعلی ترین ایجنسی قرار پائی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی حکومت کی غیر معمولی اور مثالی ہم آہنگی سب پر عیاں تھی۔ یوں لگا کہ شاید اب وزیر اعظم ہاؤس اور ملکی سیاستدانوں کے نزدیک طاقت کا سرچشمہ سمجھا جانے والے اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں رہی اور یہ فاصلہ عمران خان کے کرکٹ کے عروج میں ان کے فاسٹ باؤلنگ رن اپ کی طرح چند لمحات میں ہی طے ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر عمران خان حکومت کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو غیبی امداد حاضر ہو جائے گی۔
اویس توحید کہتے ہیں کہ ابتدا میں ہوا بھی کچھ ایسا ہی، کبھی ٹی وی اسکرینوں پر نظر آتا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے دائیں بائیں حکومت کی اکنامک ٹیم کے وزراء اور مشیران براجمان ہیں اور سامنے ملک کی معروف کاروباری شخصیات اور صنعت کار بیٹھے ہیں۔ گویا حکومت کے معاشی بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پیش کیے جا رہے تھے۔ اس دوران اپوزیشن جماعتوں کے جانب سے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے عمران خان کو برسراقتدار لانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اس دوران جب بھی حکومت مشکل میں آئی، فوری ’’غیبی امداد‘‘ اسکی مدد کو آئی۔ ضرورت سیاسی ہو یا غیر سیاسی، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی امدادی بیساکھیاں حکومت کو سہارا دیتی نظر آئیں۔ سینیٹ چئیرمین کا انتخاب ہو یا ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، اپوزیشن کے سیاسی گلے شکوؤں کی فہرست میں اسٹیبلشمنٹ سرفہرست ہی رہی۔
اویس توحید کہتے ہیں کہ جب سینیٹ چئیرمین کے انتخابات میں اپوزیشن کی مجموعی تعداد کے برخلاف لگ بھگ چودہ ووٹ کم نکلے تو خوب ہنگامہ ہوا۔ بلوچ قوم پرست رہنما مرحوم حاصل بزنجو سے شکست کی وجہ دریافت کی گئی تو تلملا کے میڈیا کو جواب دیا، ”جاؤ جنرل فیض (آئی ایس آئی کے سربراہ) سے پوچھو۔‘‘ اویس توحید کہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان فاصلہ تب مزید بڑھا، جب نواز شریف نے اور مریم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کافی کڑوا لہجہ اختیار کیا اور اختلافی لکیر گہری ہوتی گئی۔ اپوزیشن اتحاد کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کی جانب سے جب حاضر سروس فوجی جرنیلوں کو ہدف بنایا گیا تو یہ خلیج مزید بڑھ گئی۔
اس رویے کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں ایک منصوبہ بندی سمجھا گیا۔ سیاسی چالوں کے ماہر آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے اپوزیشن مخالف تیکھے تیور اور عمران خان حکومت کی طرف مزید جھکاؤ کو بھانپتے ہوئے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی۔
تاہم لگتا ہے کہ عمران خان کے درباریوں نے اسٹیبلشمنٹ کی ان مہربان آنکھوں کے اشاروں کو مستقل سمجھا اور یہ تک کہتے پائے گئے کہ عمران خان کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ اُدھر اپوزیشن کے تجربہ کار اور چالاک ذہنوں کی سیاسی جمع تفریق سے جنم لینے والے سوالات ان کی اپنی پریشانی کا سبب بنے۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت کی یہ ’’پارٹنرشپ‘‘ طول تو نہیں پکڑ جائے گی؟ خدشہ یہ بھی تھا کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر جنرل فیض کی تعیناتی بھی عمران خان کے ہاتھوں ہوئی تو پھر کیا اپوزیشن کا مستقبل گرداب میں نہ ہو گا؟ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے مابین اعتماد کا فقدان ہی رہا۔ لیکن اویس کہتے ہیں کہ پھر کچھ یوں ہوا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کچھ دن قبل فوج میں جرنیلوں کے تبادلوں اور پوسٹنگز کا وقت آیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی کا بھی۔ یعنی جنرل فیض، جن کو فوج کی سربراہی کی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے کسی کور کی کمان سنبھالنا فوج کی روایت کے مطابق لازمی ہے۔ سو جنرل فیض کا تبادلہ بحیثیت پشاور کور کمانڈر ہوا۔ ان کی جگہ لیفٹینٹ جنرل ندیم انجم کو ذمہ داریاں سونپنے کا اعلان ہوا۔
وزیراعظم ہاؤس سے فوج کے اس اعلان کی باضابطہ طور پر توثیق مطلوب تھی یعنی نوٹیفکیشن کا اجراء۔ پھر کئی دن بیت گئے، عمران خان کے اردگرد وزراء پریشان، سبب جاننے کی کوشش کرو تو سیاسی بدحواسی کا شکار۔
اسی بیچ رات گئے جنرل باجوہ کی عمران خان سے تین گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی۔ صبح شام انتظار، فوج کا اعلان اور عمران خان کا انکار۔ کانوں کو یقین نہ آئے، ابہام سے بحران۔ پہلے نکتہ سامنے لایا گیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کی صوابدید وزیر اعظم کی ہے۔ پھر یہ کہ وہ آئی ایس آئی کی سربراہی کے لیے تین جرنیلوں کا انٹرویو کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں اضطراب کی کیفیت کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ ان حلقوں کے مطابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کو اس سال جولائی میں بتایا تھا کہ فوج کے جرنیلوں کے معمول کے مطابق تبادلے اور پوسٹنگز ہونی ہیں۔ وزیر اعطم نے معاملہ آگے کر دیا۔ بقول ذرائع پھر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بھی عمران خان سے ذکر کیا گیا۔ بالآخر اکتوبر کی چھ تاریخ کو فوج کا اعلان سامنے آیا اور عمران خان کے انکار سے ایک بھونچال سا آ گیا۔
بقول اویس توحید اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات میں دراڑ واضح ہو گئی ہے اور اگر اب وزیر اعظم مان بھی جاتے ہیں تو اعتماد کا فقدان مستقل رہے گا۔
سیاسی حلقوں میں بحث کہ اگر عمران کا انکار پر اصرار قائم رہا تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جہاں کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے ساتھیوں میں دس سال تک حکمرانی کی سوچ غالب تھی، وہاں اسلام آباد کے سیاسی سازشی حلقوں میں اب دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی چہ میگویاں ہو رہی ہیں۔ اس تنازعے نے اس بنیادی سوال کو پھر سے جنم دیا ہے کہ اس ملک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری اور آرمی چیف کی ملازمت مدت میں توسیع کے معاملے کو وزیر اعظم کے انتخاب سے بھی زیادہ اہمیت کیوں حاصل ہے اور ہر مرتبہ معاملہ سیاسی بحران کی شکل کیوں اختیار کرتا ہے؟
اب تنازعے کے گرداب میں عمران خان کی حکومت ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی پھنسی نظر آتی ہے، اس کی ساکھ کو ٹھیس پہنچی ہے۔ فوج کے سینئیر ترین جرنیلوں کے تبادلے اور پوسٹنگز بھی غیر ضروری طور پر متنازعہ بنی ہیں اور عمران خان حکومت کی غیر معمولی سپورٹ پر پچھتاوے کا کھل کر ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کہ خاموشی میں غصہ بھرے گھونٹ ہی پیئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان، جو دراڑ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نہ پیدا کر سکا تھا، وہ وزیر اعظم نے خود ڈال دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

Back to top button