موسم سرما کی آمد پر کمی سے دوچار گیس کا متبادل پلان کیا ہے؟

ہر سال جب گیس کی قلت اور لوڈشیڈنگ کی خبریں موسم سرما کی آمد کی نوید بنتی ہیں، موسم سرما شروع ہوتے ہی گیس کا بحران سر اٹھانے لگتا ہے، اسلام آباد کی رہائشی ذکیہ نیئر کا سوال ہے کہ جب دن میں صرف آٹھ گھنٹے گیس آئے گی تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے لیے کھانا کیسے بنائیں گی؟نگران وزیر توانائی محمد علی نے سردیوں میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ مینیجمنٹ سے متعلق پوچھے گئے بی بی سی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ اس سال بھی گذشتہ سال کی طرح دن میں آٹھ گھنٹے گیس سپلائی کی جائے گی، ایک سال میں ’18 فیصد کمی‘ کے باعث نگران حکومت کی کوشش ہے کہ ’سردیوں میں گھروں کو آٹھ گھنٹے گیس ملے یعنی صرف کھانے کے اوقات کے دوران صبح چھ سے نو، پھر دو گھنٹے دوپہر کو اور شام بھی چھ سے نو گیس سپلائی ہوگی۔کراچی کی سکول ٹیچر یاسمین ناز کی شکایت ہے کہ صرف گیس کی لوڈ شیڈنگ ہی نہیں ہوتی بلکہ ’جو گیس آنے کا وقت ہے اس میں بھی پریشر اس قدر کم آ رہا ہوتا ہے کہ چاول یا روٹی بنانا مشکل ہوتا ہے۔پشاور کی رہائشی نسرین نے بتایا کہ ’گرمیوں میں گیزر چلتے ہیں نہ ہیٹر۔ پھر بھی آٹھ سے 10 گھنٹے گیس نہیں ہوتی۔ اور اب جب آٹھ گھنٹے گیس آنے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو بچوں کا کھانا ناشتہ سکول گرم پانی کرنا غرض سارے چولہے سے متعلق کام کیسے ہوں گے زندگی تو مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔محمد عارف کی رائے میں معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی ذخائر پر توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ پیداوار بڑھائی جا سکے۔ بائیو گیس کے پلانٹ لگانا کوئی بڑا کام نہیں، پالیسی فریم ورک پلان بننے پر وزارت پیٹرولیم اس پر کام شروع کر سکتی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’گیس کی چوری بھی گیس کی کمی میں بہت بڑا فیکٹر ہے اور یہ گیس کے محکمے کے افراد کی ملی بھگت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔وزارت توانائی کے ترجمان کے مطابق پاکستانی حکومت گیس کے ذخائر کی کمی کو دور کرنے اور ملک کے توانائی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ’ٹائٹ گیس پالیسی‘ اپنائی ہوئی ہے جبکہ ’نئے آن شور بلاکس اور آف شور بڈنگ راؤنڈ‘ جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ترجمان کے مطابق سردیوں کا لوڈ مینجمنٹ پلان پورے ملک کے لیے ہے جس میں ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کے صارفین شامل ہیں۔دوسری جانب نگران وزیر توانائی نے اگلے سال گیس کی صورتحال میں بہتری کا عندیہ بھی دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’اس سال اس سے زیادہ بہتری اس لیے بھی نہیں ہو سکتی کہ ہمارے پاس ملک میں جو گیس ہے اور (ٹریول کپیسیٹی کے باعث) جتنی ایل این جی ہم امپورٹ کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ امپورٹ کرنے کی گنجائش نہیں تاہم اگلے سال کے لے ہم صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ذخائر ابھی ایکسپلور نہیں ہوئے یا ایکسپلور ہو گئے لیکن سسٹم میں
ملکی سلامتی کیلئے 6بڑوں کی ایوان صدر میں ملاقات،اہم فیصلے
پرائسنگ فریم ورک نہ ہونے باعث سسٹم میں نہیں آ سکے تو اس پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔