حکومت اور TLP معاہدے پر عملدرآمد میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟

حکومت اور تحریک لبیک کے مابین ہونے والے خفیہ معاہدے پر عمل درآمد تک وزیر آباد میں موجود مظاہرین وہیں پر رکیں گے اور اپنی قیادت کی جانب سے کوئی اعلان ہونے تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ حکومت اور تحریک لبیک کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟
حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدے کا اعلان کرنے والے مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بنائی جانے والی سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس جاری ہیں اور جب تک تحریک لبیک کی مرکزی شوریٰ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان نہ کر دے تب تک دھرنے کے شرکا اپنی جگہ موجود رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ معاہدہ پرانے معاہدوں جیسا نہیں ہو گا جس پر دن کی روشنی میں سائن کیے جائیں مگر رات کو حکومتی اہلکار کہہ دیں کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ’ہم معاہدے کر کے چین کی نیند نہیں سو جائیں گے بلکہ اس کی چوکیداری کریں گے۔ یہ سفر کا آغاز ہے اختتام نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان اوروفاقی حکومت کے مابین تحریکِ لبیک کے لانگ مارچ کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کے اراکین نے اتوار کی سہ پہر پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ طے پا چکا ہے تاہم معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ اس دوران مفتی منیب نے دھرنے کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں شرکا سے خطاب کیا۔ مفتی منیب کی پریس کانفرنس کے بعد جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے جن راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا انھیں ٹریفک کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ تاہم وزیرآباد، جہاں لبیک مارچ کے شرکا فی الحال موجود ہیں‘ وہاں اب بھی کنٹینرز اور رکاوٹیں موجود ہیں۔ وزیرآباد میں موجود لبیک کی مرکزی شوریٰ کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکا کو جی ٹی روڈ خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے جی ٹی روڈ کے ملحقہ حامد ناصر چٹھہ پارک میں منتقل ہونے کو کہا گیق ہے۔ تاہم شوریٰ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں موجود مطالبات پورے ہونے تک لانگ مارچ بدستور وزیرآباد میں ہی رہے گا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق وزیرآباد سٹی کے سرکاری اور پرائیویٹ سکول مسلسل بند رہیں گے جبکہ وزیرآباد کا گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے زمینی رابطہ تاحال منقطع ہے۔ وزیرآباد کے تمام تھانوں سمیت اہم سرکاری عمارات پر پر بدستور تالے لگے ہوئے ہیں جبکہ وزیرآباد بائی پاس سے چناب پُل تک تمام کاروباری مراکز مکمل بند ہیں۔ لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مفتی منیب کا کہنا تھا کہ جب معاہدے میں طے شدہ 50 فیصد نکات پر عملدرآمد ہو گا اور باقی کے معاملات متحرک ہوں گے تو پھر ہم آگے چلنے کے لیے بات کریں گے۔
انکا کہنا تھا کہ یہ چند دن کی بات ہے کہ آپ ایک آئینی قانونی سیاسی جماعت کی حیثیت سے میدان عمل میں نظر آئیں گے۔ کالعدم اور ممنوع جیسے الفاظ آپ کے نام سے کٹ جائیں گے۔ اس وقت بھی کالعدم علامتی ہے کیونکہ اس میں عدالتی عمل شامل نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل ہو سکتا ہے اس میں لمبا ٹائم نہیں لگے گا۔‘ مفتی منیب کا دھرنے کے شرکا کو کہنا تھا کہ ’آپ نے متحد رہنا ہے۔۔۔ آپ نے منظم رہنا ہے اور قیادت کی ہدایات پر عمل درآمد کرنا ہے۔ کیوں اور کیسے کا سوال نہیں کرنا بلکہ قیادت کی ہدایت پر عمل کرنا ہے۔ آپ نے بیٹھے رہنا ہے، قیادت جہاں کہے وہاں جانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے معاہدے کے تحت مراحل طے کر رکھے جنھیں مراحلہ وار حیثیت میں طے کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی ہمیں حب الوطنی نہ سکھائے کیونکہ ہم سے زیادہ حب الوطن ہم ہیں۔ انہوں نے دھمکی کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر معاہدے میں کوئی خیانت ہوئی تو ہم اس سے بھی زیادہ قوت سے سامنے آئیں گے۔
اگرچہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران اور بعد میں مفتی منیب نے میڈیا کے سوالات کا واضح جواب نہیں دیا تھا تاہم دھرنے کے شرکا سے خطاب میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر حکومت نے مزید گرفتاریاں کیں تو یہ معاہدے کی حلاف ورزی سمجھی جائے گی۔ مفتی منیب نے کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی سعد رضوی سے ملاقات ہوئی ہے اور ان کا عزم بلند ہے۔ تاہم مفتی منیب کے خطاب کے بعد دھرنے کی سرکردہ قیادت میں سے ایک نے اعلان کیا کہ یہ دھرنا ختم نہیں ہو گا، جاری رہے گا، جب تک قائد محترم رہا نہ ہو جائیں۔‘
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مفتی منیب نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ تحریک لبیک کی جانب سے پاکستان میں موجود فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ نہیں کیا۔ مفتی منیب نے تحریک لبیک کے مطالبات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر کہا گیا کہ فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے کے مطالبات ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ٹی ایل پی کا مطالبہ تھا کہ حکومت کے مجاز اور سنجیدہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، جس کے پاس ریاست اور حکومت کی طرف سے فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہو۔ وجہ یہ تھی کہ تحریک لبیک اور اہلسنت کے لوگ ڈسے ہوئے تھے کہ صبح معاہدہ کیا جاتا اور شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر کہا جاتا کہ اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حیرت ہے کہ قرآن سے بھی بڑھ کر کوئی بڑا ہوسکتا ہے، اللہ نے فرمایا کہ عہد پورا کرو اور آپ سے پوچھا جائے گا اور اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ یہ منافقانہ شعار ہے جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، کسی بات کا امین بنایا جائے تو خیانت کرے اور معاہدہ کرے تو دھوکا دے۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت کے لوگ عوام میں جھوٹ بولنا شروع کردیں تو پھر کسی پر اعتماد کیسے قائم ہوں، لہٰذا ہمیں اسی صورت بات کرنا ممکن تھا کہ جب ذمہ داری قبول کی جائے، انہوں نے کہا کہ معاہدہ ہوجائے تو اس پر عمل درآمد کی پوری پوری ضمانت ہونی چاہیئے۔
تاہم تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ اگر حکومت اور لبیک کے مابین فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے حوالے سے تنازع نہیں ہے تو پھر اصل مسئلہ کیا ہے جس وجہ سے معاہدے کو بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے اور دھرنا بھی ختم نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اصل مسئلہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کا ہے جن پر سنگین مقدمات درج ہیں اور وہ پچھلے چھ ماہ سے قید میں ہیں۔ شاید اسی لیے لبیک کے وزیر آباد دھرنے میں یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ سعد رضوی کی رہائی تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔ لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سعد رضوی کی رہائی کے لیے کون سا قانونی راستہ اختیار کرتی ہے؟