توسیع کے معاملے پر قانون سازی بھی اور حکم امتناعی بھی

حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک طرف وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آئین کی دفعہ 172 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کو ایک دفعہ پھر چیلنج کر دیا ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نظرثانی درخواست کے بعد وفاقی حکومت نے دو متفرق درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہیں۔ جن میں عدالت سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے اور نظرثانی اپیل پر لارجر بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے دائر دو الگ الگ درخواستوں میں حکم امتناع جاری کرنے اور لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔ حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی ہے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے پچھلا بینچ تین اراکین پر مبنی تھا جس کی سربراہی چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کی تھی۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع بھی مانگ لیا ہے اور استدعا کی ہے کہ نظرثانی درخواست پر فیصلہ آنے تک آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق دئیے گئے 28 نومبر 2019 کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمد معطل کیا جائے۔
یاد رہے کہ نظر ثانی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آرمی چیف کی مدت کا تعین وزیراعظم کا اختیار ہے، فیصلہ میں ایگزیکٹیو کے اختیارات کم کر دیئے گئے ہیں، قانون میں آرمی چیف کی ٹرم کا تعین کرنا ضروری نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست میں استدعا کی گئی کہ فیصلے میں اہم آئینی و قانونی نکات کا جائزہ نہیں لیا گیا، عدالت نے ججز توسیع کیس کے فیصلوں کو بھی مد نظر نہیں رکھا۔ درخواست میں کہا گیا کہ قانون میں آرمی چیف کی مدت میں ٹرم نہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم جب چاہیں رکھیں جب چاہیں ہٹا دیں، آرمی چیف کی مدت کا تعین کرنا آئین کے منافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آرمی سکیورٹی کا ادارہ ہے، ملکی حالات سکیورٹی آف پاکستان سے منسلک ہیں، عدالت عظمی اپنے 28 نومبر کے مختصر اور 16 دسمبر کے تفصیلی فیصلے پر نظرثانی کرے۔
واضح رہے کہ 28 نومبر 2019 کو عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ 6 ماہ کے لیے آرمی چیف رہیں گے اور اس عرصے کے دوران پارلیمان آرمی کی توسیع/دوبارہ تقرری کے معاملے پر قانون سازی کرے گی۔اس کے جواب میں وفاقی حکومت نے فیصلے کے خلاف 26 دسمبر 2019 کو سپریم کورٹ میں ایک نظرثانی درخواست دائر کی تھی، جس میں مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔