آئینی ترمیم : مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت کا ساتھ دینے سے انکار

مجوزہ آئینی ترمیم کے سلسلے میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جمیعت علما اسلام ف (جے یو آئی) نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا، جمیعت علما اسلام نے آئینی ترمیم کےلیے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کےمشترکہ ڈرافٹ پر اگلا اجلاس زرداری ہاؤس میں ہوگا۔

سینئر رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ کی زیر صدارت 26 ویں آئینی ترامیم کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر گوہر، علی ظفر اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب شریک ہوئے جب کہ اسد قیصر نے ویڈیو لنک کےذریعے اجلاس میں شرکت کی۔

اس کے علاوہ اجلاس میں فاروق ستار،امین الحق، راجہ پرویز اشرف،نوید قمر، شیری رحمان، عجاز الحق، اعظم نذیر تارڑ اور عرفان صدیقی سمیت دیگر سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے آج کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

کامران مرتضیٰ کاکہنا تھاکہ پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور کمیشن کا فرق ہے، پیپلز پارٹی کےباقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں،امید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کرلیں گے۔

چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نےکہا کہ جے یو آئی اور حکومت کے ڈرافٹ کی کاپی مل گئی ہے،ان ڈرافٹس پر غور کریں گے،ہماری پارٹی نے اگلا اجلاس 17 اکتوبر کے بعد بلانے کا کہاہے۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نےکہا کہ یہ ترمیم حکومت کی جانب سے عدلیہ پر ڈرون حملہ ہے،مسودہ ان کےپاس کوئی نہیں ہے،وہ کہیں چھپ رہا ہوگا۔

اجلاس شروع ہونےسے پہلے میڈیا سے گفتگو کے دوران خورشید شاہ نےکہا کہ ہر پارٹی کا حق ہے وہ کس سےبات کرنا چاہتےہیں، جے یو آئی نے ہمیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پر تحفظات کا ابھی تک نہیں کہا،جب وہ کہیں گے تو دیکھیں گے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہےکہ ہم ایک مشترکہ ڈرافٹ دیں گے۔وہ ہمارےساتھ اور ہم ان کے ساتھ اپنا اپنا ڈرافٹ شیئر کریں گے۔

اجلاس کےدوران پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے ارکان نے پی ٹی آئی کے 15 تاریخ کے احتجاج کےاعلان پر اظہار تشویش کرتےہوئے کہا کہ کیسے ہوسکتا ہے ایک طرف ترمیم کےلیے اتفاق رائے پیدا کریں اور دوسری طرف انتشاری سیاست کریں۔

ہمیں مولانا کے ووٹ بھی چاہئیں اور ساتھ بھی چاہیے : عرفان صدیقی

اس پر عمر ایوب نےکہا کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے،حکومت نے فسطائیت کی انتہا کردی ہےاور ہمارے کارکنوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے،پی ٹی آئی کسی منفی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھاکہ گفت و شنید سےمعاملات حل ہوت ہیں، آئین کےفریم ورک میں مذاکرات ایک ماہ سے چل رہے ہیں۔کوئی ایسی چیز نہیں جس کا حل نہ ہو۔صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہوں گے،کوئی تجویز بھی دیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم اپنے ساتھ کوئی مسودہ نہیں لے کر آئے لیکن ہم دیکھیں گےکہ یہ لوگ آج کیا کہتے ہیں اور کیا چیز شیئر کرتے ہیں۔

رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار نےکہا کہ ہم نے آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں دیکھا، حکومتی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کےلیے وکالت کررہی ہیں، پی ٹی آئی اس آئینی ترمیم کی مخالفت کررہی ہے،یہ جماعتیں اپنی ضرورت کے تحت کسی بھی اصلاحاتی ایجنڈا کی حمایت یا مخالفت کرتی ہیں۔پی ٹی آئی اگر حکومت میں ہوتی تو اس کی ضرورت بھی اسی طرح کےبل کی ہوتی۔

فاروق ستار نےکہا کہ پی ٹی آئی عدالتی اصلاحات،آئینی عدالت کےحق میں تھی، پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں اس کو سپورٹ کیاتھا۔آج وہ اس لیے مخالفت کررہے ہیں کہ ان کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے، اصول چلے گئےہیں ساری بات سیاسی مفادات کی ہے۔

واضح رہےکہ گزشتہ روز بھی خصوصی کمیٹی کااجلاس ہوا جس میں پیپلز پارٹی نےاپنا مسودہ پیش کیا۔ مسودے میں وفاق اور صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام اور ججز کےتقرر کےلیے آئینی کمیشن بنانے کی تجویزدی گئی۔

Back to top button