حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
تحریر:امتیازعالم۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
آزادانہ انتخابی مہم چلنے دی جاتی ہے، نہ شفاف انتخابات ہونے دئیے جاتے ہیں، انتخابی نتائج چوری ہوجاتے ہیں۔ پھر عوام کے حق رائے دہی کو تلپٹ کر کے ضرورت کے مطابق دم کٹی گماشتہ حکومتیں مسند اقتدار پر بٹھا دی جاتی ہیں۔ نتیجتاً عوام کا ووٹ کی کرشمہ سازی پہ اعتماد ختم ہوتا جاتاہے۔ کچھ ایسا ہی 2024 کے سردی میں ٹھٹھرے ہوئے، سیاسی جوش و جذبہ اور نظریاتی مباحث سے عاری رینٹ اے کراؤڈ طرز کی یکطرفہ انتخابی مہم کے ساتھ ہوا، جس کے حیران کن لیکن رات گئے کچھ گھڑے گئے نتائج سے پیدا کردہ حکومت سازی کے معمے ہیں کہ اپنی خجالتوں کو آئندہ دنوں، ہفتوں اور سالوں میں ظاہر کرتے رہیں گے اور کٹھ پتلی تماشہ جاری رہے گا۔ جو جمہوری ٹرانزیشن میثاق جمہوریت کی بنا پر 2008 میں شروع ہوئی تھی وہ 2024 کے چوتھے انتخابات تک پہنچتے پہنچتے اپنا جمہوری دم کھو بیٹھی جس کا آغاز 2018 کے انجینئرڈ انتخابات اور اسکے نتیجہ میں قائم کی گئی ہائبرڈ حکومت اول کے قیام اور اسکے بحران پہ منتج ہوا۔ بجائے اس کے کہ ہائبرڈ نظام اول کے ناکام و نامراد تلخ نتائج سے سبق حاصل کیا جاتا، بار بار کی غلطی دہرانے کے مقولے کے مصداق، اسی ہائبرڈ ماڈل کو اب کی بار بڑے پیمانے پر ایک وسیع تر ہائبرڈ نظام دوم کی صورت میں دہرایا جارہا ہے۔ لیکن پنجاب کے غصیلے نوجوانوں اور پختونخوا کے غیور عوام نے سارے یکطرفہ انتخابی عمل کو اُلٹ پلٹ دیا۔ ایسی قبل از ووٹنگ سیاسی انجینئرنگ کی گئی یا پھر یکطرفہ غیر جمہوری انتخابی مہم کی اجازت دی گئی جو شاید اسٹیٹ آف مارشل رُول میں ان گنہگار آنکھوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان اور انکے تقریباً تمام سینئر ساتھی پابند سلاسل ہوئےیا مفرور۔ پھر ایک بار ایک اور سابق وزیراعظم کو ریاست کا باغی، کرپٹ اور اخلاق باختہ قرار دلوانے کیلئے جیل ہی میں کینگرو کورٹس لگائی گئیں اور سبک رفتاری سے پے در پے 31 برس کی قید بامشقت کی سزائیں سنادی گئیں۔ اسکی مقبول جماعت اپنے شناختی انتخابی نشان ہی سے محروم نہیں کی گئی بلکہ رائے دہندگان کی بھاری تعداد کو گمنام نشانات کی بارش سے کنفیوژ کرنے میں کو ئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ اسکے امیدواروں کو آزادی اظہار، آزادی اجتماع اور تمام تر شہری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ پارٹی لیڈر کا نام لیا جاسکتا تھا نہ اسکی تصویر چھاپی جاسکتی تھی۔ پارٹی کا جھنڈا لہرایا جاسکتا تھا نہ کوئی انتخابی جلسہ منعقد کیا جاسکتا تھا۔ جگہ جگہ امیدواروں کو انتخابات سے علیحدگی اختیار کرنے پہ مجبور کیا جاتا تھا اور اتنا کہ پارٹی کو امیدواروں کے چنائو میں نہ صرف یہ کہ مشکلات درپیش آئیں بلکہ وہ کئی مقامات پر گمراہ بھی ہوگئی اور ایسے امیدوار بھی چن لیے گئے جو منتخب ہونے پر پارٹی سے دستبرداری کے حلفیہ بیان خفیہ ہاتھوں میں دے چکے تھے۔
انتخابی مہم کو التوا کی بے یقینی کا شکار کیا گیا، سب سے بڑی جماعت پر انتخابی مہم کے دروازے بند کر کے اور نتیجتاً مخالف جماعتوں کی مہم کے ٹھنڈا پڑنے سے انتخابی مہم کو نہ صرف عوامی جوش و خروش سے محروم کردیا گیا بلکہ اس کو ہر طرح کے سیاسی مکالمے اور نظریاتی مجادلے سے عاری کردیا گیا۔ اس مہم کی دوسری بڑی جماعت نواز لیگ نے تو سیاسی بانجھ پن کی انتہا ہی کردی۔ وہ تو انتخابات لڑے بنا ہی جناب نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم لگوا کر اپنا سیاسی چولہا ٹھنڈا کر کے بیٹھ رہی جس سے انتخابی مہم بالکل ہی ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ صرف بلاول بھٹو ایک عوامی منشور پیش کرسکے اور اپنی ملک گیر مہم چلاسکے، لیکن انکی حریف ن لیگ نے انکے بائونسرز کو ہوا میں جانے دیا جسے کرکٹ میں ویل لیفٹ کہا جاتا ہے۔ ایسے لگا جیسے مولانا فضل الرحمان کی سٹی کہیں گم ہوگئی اور قوم پرستوں کو سیاسی میدان سے نکال باہر کیا گیا جیسا کہ بلوچستان میں کیا گیا۔
انتخابی روز محشر کو تو جیسے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حشر نشر ہوگیا۔ انتظامیہ کے اعلیٰ فیصلہ سازوں نے سوچا کہ کم از کم چناؤ کے روز تو انتخابات کا بھرم رکھا جائے کہ انہیں یقین تھا کہ راندہ درگاہ پی ٹی آئی کے ہاتھ پائوں اتنے باندھ دئیے گئے ہیں کہ مایوسی کی گمنامی میں چھپے نوجوان انصافی کہاں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نکلنے کی جرأت کریں گے۔ ’’بس یہی غلطی‘‘ تھی جو گلے پڑگئی۔ نوجوان، خواتین اور بزرگ اتنی بڑی تعداد میں نکلے کہ ن لیگ کا اپنے گڑھ پنجاب میں تقریباًصفایا ہوتا دکھائی پڑا۔ پھر ممکنہ انتخابی نتائج سے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہنے کا ایسا خدشہ پیدا ہوا کہ انتخابی نتائج سست ہوتے ہوتے موبائل سروسز پر طویل بندش کی خاموشی میں کہیں گم ہوکر رہ گئے۔ دھاندلی دھاندلی کا شور ہر سو سنائی دے رہا ہے۔ تادم تحریر تحریک انصاف نے پختونخوا میں بڑا مینڈیٹ حاصل کرلیا ہے اوریہ پنجاب سمیت وفاق میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ ن لیگ ہارس ٹریڈنگ کر کے پنجاب کو بمشکل بچا پائے گی جبکہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں اپنی برتری بر قرار رکھتے ہوئے ملک بھر میں کہیں کہیں اپنی بطور وفاقی جماعت موجودگی ثابت کرنی ہے۔ البتہ کراچی میں لگتا ہے متحدہ قومی موومنٹ کو وہ تمام گفٹڈ حلقے واپس لوٹادئیے گئے ہیں جو ان سے لے لئے گئے تھے لیکن انتہائی کم ووٹوں کی بنیاد پر۔ اب تین ہی چارے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کسی پارٹی میں شامل ہوکر مخصوص نشستوں میں آدھی کے حقدار بن کر وفاق اور پختونخوا میں حکومت بنانے کے اپنے اول حق کا تقاضہ کریں اور پنجاب میں ن لیگ کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ ایسا نہیں ہوتا تو میاں نواز شریف کی وسیع البنیاد حکومت کی مستحسن تجویز پر سب مل کر غور کریں جس میں تحریک انصاف کے آزاد ارکان کے بلاک کو بھی لازماً شامل کیا جائے، لیکن اسکے لیے پی ٹی آئی کیلئے عام سیاسی معافی کی شرط کو اعتماد سازی کیلئے اپنانا ہوگا۔ وگرنہ میاں صاحب کی تجویز آگے نہیں بڑھے گی۔ یہ جتانا ضروری ہے کہ نواز شریف نے وکٹری سپیچ کر کے خود فریبی کا مظاہرہ کیا ہے کہ انکی پارٹی ونر نہیں بلکہ رنر اَپ ہے۔ انتخابی مینڈیٹ ملا ہے تو تحریک انصاف کو اور پیپلزپارٹی کو۔ پنجاب میں بھی ن لیگ گھوڑوں کی تجارت کے بل پہ حکومت بنا پائے گی۔ تیسرا چارا خوفناک ہے کہ اب وفاقی حکومت کی تشکیل میں ہارے ہوئے اور خریدے ہوئے گھوڑے اکٹھے کر کے ایک وسیع تر ہائبرڈ حکومت کا اصطبل بنایا جائے۔ اس سے جو سیاسی بحران عمران حکومت کے خلاف آئینی لیکن اسپانسرڈ عدم اعتماد سے شروع ہوا تھا جاری رہے گا۔ اور سیاسی استحکام ندارد رہ کر معیشت کو بھی لے بیٹھے گا۔ (آخر میں ایک اعتراف گناہ ! اپنے پسماندہ بہاولنگر کی محبت اور غریب ترین عوام کی بھلائی کیلئے میں نے جو انتخابی جوا کھیلا تھا اور وہ بھی حقوق خلق پارٹی کے نشان پر جو بیک فائر کرگیا جس پر میری بیٹی نے خوب پھبتی کسی ہے: ’’رُل تاں گئے آں، پر چس بڑی آئی جے‘‘)