دوستی کی آفر کے جواب میں بھارتی آرمی چیف کے پاکستان پر الزامات
پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی جانب سے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کے اظہار کا غلط مطلب لیتے ہوئے انڈین آرمی چیف جنرل منوج مکند نراونے پہاڑی پڑ چڑھ گئے ہیں اور یہ بیان داغ دیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ’ٹوٹا ہوا اعتماد‘ بحال کرنا مکمل طور سے پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے اور ایسا کرنے کے لیے اسے اپنی سر زمین سے دہشت گردی کا نیٹ ورک اور سرحد پار دہشت گرد بھجوانا ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دہائیوں پرانے عدم اعتماد کو راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پاکستان جنگ بندی کا احترام کرتا ہے اور دہشت گردوں کو بھارت بھیجنا بند کر دیتا ہے تو ان اقدامات سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہوگا لہازا اس معاملے میں ذمہ داری پوری طرح سے پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔
جنرل نراونے نے یہ باتیں 3 جون 2021 کو تب کیں جب وہ پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے جموں کشمیر کے دورے پر تھے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے 18 مارچ 2021 کو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے اسلام آباد میں ایک سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات ہی خطے میں امن اور ترقی کی کنجی ہے، تاہم یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے جنکا حل پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری یے۔ اس تقریر کے ایک ماہ بعد صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل باجوا نے انکشاف کیا تھا کہ اس مرتبہ پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لئے بیک ڈور خفیہ ڈپلومیسی کی جا رہی ہے اور پاکستانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ایخ تیسرے ملک میں وقفے وقفے سے ڈائیلاگ کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران ایسی اطلاعات آنا شروع ہو گئی کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کے مابین بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے معاملے پر اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا کرتی تھی لیکن اس بار اسٹیبلشمنٹ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے حالیہ ہفتوں میں میں دو مرتبہ کھل کر یہ اعلان کیا ہے کہ بھارت جب تک مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حثیت ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ دوستی کرنا کشمیریوں کے خون کے سودا کے مترادف ہو گی۔
تاہم دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھارت سے دوستی کی کوششیں جاری ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے فروری 2021 میں ایکدوسرے کے تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول یا ایل او سی پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں۔ ان واقعات میں عسکری و سویلین ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں میں واقع املاک کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ دونوں ممالک سرحدی سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ لیکن اس معاہدے کے بعد ایک تو انسانی جانیں بچ رہی ہیں اور دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجیوں کی تعیناتی سے ہونے والے خرچے میں بھی نمایاں کمی آ گئی ہے۔
اسی معاہدے کے بعد مارچ 2021 میں جنرل باوجوہ نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ تاہم اب بھارتی آرمی چیف جنرل نراونے نے ٹائمز آف انڈیا کو ایک انٹرویو میں یہ کہہ دیا ہے کہ گویا جنگ بندی پہلا اچھا قدم تھا لیکن پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پاکستان کو اپنی سر زمین سے سرگرم دہشت گرد ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ جنرل نراونے ناردرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل وائے کے جوشی اور 15 کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے کے ہمراہ 3 جون کے روز جموں کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں مختلف یونٹوں کا دورہ کیا۔ وہاں تعینات فوجی کمانڈروں نے انہیں سکیورٹی انتظامات کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ ’سرحد پار سے کسی بھی قسم کی دراندازی‘ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مقامی کمانڈروں نے فوجی سربراہ کو موجودہ سکیورٹی صورتحال اور نوجوانوں کو دہشت گردی کے خلاف بھرتی کرنے اور ان کی بھرتی میں شامل عناصر کے نیٹ ورک کی نشاندہی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں بتایا۔
یاد رہے کہ فروری 2019 میں جموں کشمیر کے ضلع پلوامہ میں انڈین فوجی دستے پر حملے کے نتیجے میں 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا اور دونوں ممالک کے تعلقات سخت کشیدہ ہو گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے لی تو انڈیا نے حملے کی منصوبہ سازی کے لیے براہ راست پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بعد ازا انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی علاقے بالاکوٹ میں فضائی بمباری کر کے جیش محمد کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ لیکن اگلے ہی دن پاکستانی فضائیہ نے لڑاکا طیاروں کے ذریعے جوابی کارروائی کی اور انڈیا کے مگ 21 جنگی طیارے کو مار گرایا گیا۔ اسی دوران پاکستان نے انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ لیکن دو دن بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔
ان واقعات کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی برقرار رہی جس میں ایک مرتبہ اس وقت پھر شدت آئی جب پانچ اگست 2019 خو انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی خود مختار حیثیت ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ برقرار رہا ہے. لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستانی فوج کے سربراہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، انڈین آرمی چیف نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گرد بھیجنے کا الزام عائد کر دیا ہے جس سے ان کوششوں کو دھچکا لگے گا۔