قومی اسمبلی: وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کےلیے ووٹنگ جاری

pایوان بالا میں اسلام آباد کی نشست پر اپ سیٹ شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان آج قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہے ہیں اور اس اعتماد کے ووٹ کےلیے قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس جاری ہے۔
وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل کرنے کےلیے 172 ووٹ درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس دن سوا 12بجے شروع ہوا اور تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی، جس کے بعد قومی ترانا پڑھا گیا۔ وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ہونے والے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں قراداد پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ‘یہ ایوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان پر اعتماد بحال کرتی ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق (7) کے تحت ضروری ہے‘۔ وزیر خارجہ کی جانب سے قرارداد پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اراکین کو طریقہ کار سے متعلق بتایا اور ایوان میں اراکین کو آنے کےلیے گھنٹیاں بجائی گئی۔ بعدازاں ایوان کے دروازے بند کردیے گئے اور اراکین کو اعتماد کا ووٹ دینے کےلیے لابی میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین شریک نہیں ہیں تاہم ایوان میں یہ دیکھنے کو ملا کہ اپوزیشن کی نشستوں پر نوٹ (کرنسی) اور ہار رکھے گئے تھے، جسے بعد ازاں اسپیکر کے کہنے پر ہٹا دیا گیا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت اور اتحادیوں کی تعداد کو دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 156، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 5، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3، عوامی مسلم لیگ کی ایک، بی اے پی کے 5 اور جے ڈبلیو پی کا ایک رکن ہے جب کہ 2 آزاد اُمیدوار بھی حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کے اراکین کی مجموعی تعداد 160 ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 83، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین کی تعداد 55، ایم ایم اے کے 15، اے این پی کا ایک، بی این پی ایم کے 4 جب کہ 2 آزاد امیدوار بھی اپوزیشن کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کی جانب سے اپنے اراکین سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا اعلان رواں ہفتے ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر اپ سیٹ شکست کے بعد سامنے آیا تھا۔ 3 مارچ کو ایوان بالا کے انتخابات میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکومتی اتحادی امیدوار حفیظ شیخ کو اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی سے شکست ہوئی تھی اور حکومت ایوان زیریں میں اکثریت رکھنے کے باوجود یہ نشست ہار گئی تھی۔ حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو 164 ووٹ ملے تھے جب کہ یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اتحاد کے اراکین قومی اسمبلی نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو وٹ دیے تھے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی وزیراعظم کی جانب سے اس طرح کا قدم اٹھایا جارہا ہے۔ اس سے قبل قانون کے تحت ہر وزیراعظم کو اپنے منتخب ہونے کے 30 دن کے اندر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری تھی اورماضی میں بیظیر بھٹو، نواز شریف اوردیگر وزرائے اعظم کو اپنے انتخاب کے بعد یہ ووٹ لینا پڑا تھا۔ تاہم 2010 سے قانون میں اس قسم کی پریکٹس کی ضرورت نہیں، درحقیقت آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کے مطابق صدر اس وقت تک اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے‘۔ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس سے قبل گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کا ایک اجلاس ہوا تھا جہاں حکمران اتحاد کے 179 اراکین میں سے 175 نے وزیراعظم عمران خان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایوان زیریں کے خصوصی اجلاس کے دوران انہیں اعتماد کا ووٹ دیں گے۔ حکمران اتحاد کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو کہا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم کےلیے ووٹ دیں بصورت دیگر وہ ڈی سیٹڈ ہوسکتے ہیں۔ مذکورہ اجلاس میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی، عامر لیاقت حسین، غلام بی بی بھروانہ، باسط سلطان اور مونس الہٰی شرکت نہیں کرسکتے تھے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نے کہا تھا کہ جو اراکین غیرحاضر تھے وہ آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، ان کے مطابق علی زیدی لاہور میں پھنس گئے تھے جب کہ کراچی میں موجود عامر لیاقت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہفتے کو ایوان میں موجود ہوں گے۔
واضح رہے کہ فیصل واڈا کے استعفیٰ دینے اور این اے 175 ڈسکہ کی نشست پر دوبارہ اتنخابات کے بعد قومی اسمبلی میں حکومت کی 179 نشستیں ہیں اور وزیراعظم کو 341 اراکین کے ایوان کے اعتماد حاصل کرنے کےلیے کم از کم 172 ووٹس درکار ہیں۔ وہیں آج کے اجلاس میں 10 جماعتیں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن نے اس پورے عمل کو بے معنیٰ قرار دیا تھا۔