سابق ڈی جی FIA نے حکومتی احتساب کا پول کھول دیا

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے حکومتی احتساب کا پول کھولتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کیخلاف دہشتگردی جبکہ خواجہ آصف کیخلاف غداری کا مقدمہ درج نہ کرنے پران سے اظہار ناراضی کیا اور پھر انھیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا، انہوں نے کہا کہ جو کام میں نے کرنے سے انکار تھا وہی کام اب نیب سے لیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے مسلسل اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان پر ماضی میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ جبکہ حالیہ دنوں میں غداری کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں، بقول عمران خان ملک میں احتساب کا بے لاگ اور غیر جانبدارانہ عمل جاری ہے تاہم اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں تاہم حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے دعوؤں کو اس وقت مزیدتقویت ملی جب معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر آنے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔ انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ انہیں شہباز شریف،حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انھوں نے بے بنیاد مقدمات کے اندراج سے انکار کر دیا انھوں نے مزید بتایا کہ انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھیں اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لاہور بھیجا گیا جہاں مجھے مواد دیا گیا لیکن میں نے یہی کہا کہ س طرح کے مقدمات اور تحقیقات صوبائی اینٹی کرپشن کرسکتی ہے ایف آئی اے نہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعظم عمران خان آپ سے کیا چاہتے تھے جو آپ پورا نہیں کررہے تھے جس پر بشیر میمن نے جواب دیا کہ ’جو نیب نے کیا وہی‘ یعنی جس طرح کے بے بنیاد انتقامی کارروائیوں پر مبنی تحقیقات نیب چلا رہا ہے اسی طرح کے بے بنیاد مقدمات کا سابق ڈی جی ایف آئی اے سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ بشیر میمن نے کہا چیئرمین نیب کے درمیان میں آنے سے مجھ پر دباؤ دور ہوگیا وہ میرے محسن ہیں کیوںکہ اب نیب کے مقدمات پر عدالتی فیصلوں کو سن کر میں سوچتا ہوں کہ خدا نے میری عزت بچانی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ’مجھے پاکستان کے سب سے اعلیٰ دفتر میں بلا کر سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر جاری ہونے کی وجہ سے مریم نواز کے سوشل میڈیا کے سیل پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن میں نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ اس پر کس قانون کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ ہوسکتا ہے؟ لہذا میں نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ خواجہ آصف کے کیس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ وزیر دفاع تھے اور دبئی کی ایک کمپنی سے تنخواہ حاصل کرنے پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا پرچہ کروانے کا کہا گیا جس کی انکوائری کرنے کا حکم کابینہ نے دیا تھا تاہم ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جس کی وجہ سے میں نے مزید کیس چلانے سے معذرت کر لی۔
بشیر میمن کا کہنا تھا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی کہ اس سے 2 روز قبل مجھے وزیراعظم کے دفتر میں بلایا گیا جہاں ان کے پرنسپل سیکریٹری موجود تھے جبکہ میں اپنے ساتھ اپنے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو لے کر گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کے الیکٹرک کی بدحالی پر بات ہوئی جس پر میں نے کہا کہ کے الیکٹرک پر سوئی سدرن کے 87 ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن کہا گیا کہ ابراج گروپ تباہ ہوگئی ہے اور ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات کر کے بہت غلط کیا۔ وزیر اعظم نے کے الیکٹرک کا کئی مرتبہ ذکر کیا اور کہا کہ آپ نے اسے تباہ کردیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی لیکن جب واپس آیا تو جس کی حکومت ہے اس نے مجھے 15 روز کی چھٹی پر بھیج دیا اور اس کے بعد ہر 15ویں روز چھٹی مل جاتی تھی اور میں ایک طرح سے گھر میں ہی بیٹھا ہوا تھا تاہم جب اگلے 15 روز کی چھٹی کی منظوری نہیں آئی تو میں نے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان سے پوچھا تو انہوں نے دفتر بلا لیا۔ بشیر میمن کے مطابق جب دوبارہ دفتر آئے تو تیسرے روز میرا تبادلہ کردیا گیا حالانکہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے میرے تبادلے پر حکم امتناع جاری کیا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود تبادلہ کردیا گیا۔
وزیراعظم کی ناراضی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے تائید کی کہ مسلم لیگ ن بالخصوص شریف خاندان کے خلاف مقدمات نہ درج کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ آپ نے یہ نہیں کیا وہ نہیں کیا لیکن میں نے انہیں جواب دیا کہ اس قسم کے مقدمات کے لیے نیب ہے ان سے کروالیں۔ وزیراعظم سے ہونے والی آخری ملاقات کے بارے میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ خواجہ آصف، مریم نواز، اورمسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر خاصے جذباتی ہوگئے لیکن میں نے انہیں یہ کہا کہ میری ملازمت کے 3 ماہ باقی ہیں اور 22 گریڈ سے بڑا گریڈ کوئی نہیں اس لیے معاملات اسی طرح چلیں گے جیسے چل رہے ہیں۔ بشیر میمن نے کہا کہ 16 دسمبر کو مجھے ریٹائر ہونا تھا لیکن 2 دسمبر کو میرا تبادلہ کردیا گیا جو عموماً نہیں ہوتا لیکن اس سے قبل مجھے 3 سے ساڑھے 3 ماہ تک جبری چھٹی پررکھا گیا تھا.وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا کہتے وقت اپنے احساسات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ‘سرکاری افسران اس طرح کی باتیں سننے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی، میرے خیال میں یہ بات کسی شخص کی نہیں بلکہ کرسی کی طاقت کی ہے۔
صحافیوں کے خلاف سائبر کرائم قانون کے استعمال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ایک آلہ رہی ہے کہ جس کو چاہو پکڑ لو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے قبل سیکرٹری داخلہ کی طرف سے سعودی ولی عہد کے خلاف ٹوئٹر پر تصاویر لگانے والے صحافیوں کے حوالے سے معاملہ آیا تھا، میں نے انہیں کہا کہ یہ مناسب نہیں رہے گا، دوسرے یا تیسرے دن شیریں مزاری نے مجھ سے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ایک بار صحافی احمد نورانی کی جانب سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے خلاف ٹوئٹ کی گئی جس پر وزیر داخلہ نے مجھے اپنے دفتر بلایا، میں نے انہیں بتایا یہ قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے اور انہیں کارروائی کے لیے قانونی طریقہ بتایا کہ آپ کو عدالت جانا پڑے گا، جس پر اعجاز شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کیوں عدالت جاؤں اور صحافی کی ٹانگیں توڑ دو، میری طرف سے وضاحت کے بعد انہوں نے مجھے کبھی فون یا طلب نہیں کیا۔
اصغر خان کیس کی تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘میں نے جو آخری رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں لکھا تھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کس نے پیسے دیے، کب اور کس کو دیے، ثبوت نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جس نے پیسے بانٹے وہ پاکستان سے بھاگ گیا۔’سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے کیس میں تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کو خصوصی ہدایات دیے جانے کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے کوئی ہدایات نہیں آئیں نہ کسی نے مقدمہ واپس لینے کا کہا۔’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی تیاری کے حوالے سے بشیر میمن نے کہا کہ ‘ریفرنس کی تیاری میں ایف آئی اے کا کوئی کردار نہیں ہے، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات کر ہی نہیں سکتا۔’