سیکیورٹی ادارے بلوچ دہشت گردوں کو قابو کرنے میں ناکام کیوں ؟

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیے جانے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ علیحدگی پسندوں کی ملک دشمن کارروائیوں میں شدت کیوں آتی جا رہی ہے اور سکیورٹی اداروں کی حکمت عملی ایسے حملوں کو روکنے میں کارگر ثابت کیوں نہیں ہو پا رہی؟
بلوچستان میں 11 مارچ کو بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد حکومتی سطح پر جاری صلاح مشورے سے واضح ہو رہا ہے کہ ریاست آنے والے دنوں میں اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر سکتی ہے۔ فوجی ترجمان نے بھی یہ کہہ ڈالا ہے کہ ٹرین حملے کے بعد رولز آف دی گیم تبدیل ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے باعث صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمتِ عملی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ حملے کے ایک روز بعد پاکستانی فوج کے ترجمان، وزیرِ اعظم، ان کے وزرا اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے بیانات خاصے جارحانہ تھے۔
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو سڑکوں پر، ٹرینوں میں یا بسوں میں اپنے بیرونی آقاؤں کے ایما پر بربریت کا نشانہ بنائے۔ ادھر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پورے پاکستان کو دہشت گردی کے معاملے پر کنفیوز کیا ہے، وہ آپ کو مار رہے ہیں، اور آپ جرگہ کرنے کی بات کر رہے ہیں، میں کہتا ہوں کہ جو ریاست کو توڑنے کی بات کرے گا، اور بندوق اٹھائے گا ریاست اس کا قلع قمع کرے گی۔‘
اس دوران بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلیٰ اختر مینگل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ باقی نہیں جہاں حکومت یہ دعویٰ کر سکے کہ اُس کا کنٹرول ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے خبردار کیا تھا، ہم سے پہلے والوں نے بھی خبردار کیا تھا مگر اُن باتوں کو سنجیدہ لینے کی بجائے لوگوں کا نہ صرف مذاق اڑایا گیا بلکہ لوٹ مار اور قتل عام کا بازار گرم کیا گیا۔ ان کا یہ بیان پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک عرصے سے جاری شورش اور قوم پرست علحیدگی پسند تنظیموں کی ریاستی اداروں کے خلاف شدت پسند کارروائیوں کی شدت کو بیان کرتا ہے۔ ویسے تو بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ابتدا بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہو گئی تھی جب ریاستِ قلات کے پرنس کریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔
اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت بھی صوبے میں ایک چھوٹی عسکریت پسند تحریک اٹھی تھی۔
بلوچستان میں منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کیا گیا تھا۔ اس وقت سردار عطااللہ مینگل ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر تھے جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران صوبے میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر صوبائی محمکہ داخلہ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 2024 میں بلوچستان میں حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے مجموعی 548 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 245 حملے صرف سکیورٹی فورسز پر ہوئے ہیں۔ جنوری 2024 سے دسمبر 2024 تک کے اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں مجموعی طور پر 125 سکیورٹی اہلکار مارے گئے جبکہ 283 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق وفاق کی سکیورٹی فورسز سے تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ برس کے دوران بلوچستان میں ایف سی پر حملوں کے مجموعی طور پر 135 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 55 اہلکار مارے گئے جبکہ 168 زخمی ہوئے۔
بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر سب سے زیادہ حملے بلوچ آبادی والے علاقوں میں ہوئے، جن میں مکران ڈویژن کے تین اضلاع کیچ، پنجگور اور گوادر کے علاوہ آواران، قلات، مستونگ، خاران، ضلع کچھی میں درہ بولان، نوشکی، کوہلو اور خضدار کے علاقے شامل ہیں۔ کوئٹہ کے علاوہ پشتون آبادی والے علاقے ہرنائی اور دُکی میں بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ اور مختلف عسکری تنظیموں کے اتحاد براس یعنی بلوچ راجی آجوئی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملوں کے چند واقعات پشتون آبادی والے علاقوں میں ژوب، قلعہ عبداللہ اور پشین میں ہوتے رہے ہیں۔ ان حملوں کے ساتھ ساتھ کوئٹہ شہر میں بعض واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔
سابق وزیراعلی بلوچستان اختر مینگل کہتے ہیں کہ ہم ایک ٹرین ہائی جیکنگ کی بات کر رہے ہیں لیکن بلوچستان کے لوگوں کو 72 سال سے یرغمالی بنا کر رکھا ہوا ہے، ان کے سیاسی، معاشی اور انسانی حقوق کو ہائی جیک کیا گیا، آج کی صورتحال اس کا نتیجہ ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان فاصلہ اور اعتماد کی فضا نہ ہونا ہے۔
ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد یوتھیے انڈین میڈیا کے ہمنواکیوں بنے؟
تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی بنیادی وجوہات بلوچ عوام کے بنیادی مطالبات کی شنوائی نہ ہونا ہے جن میں معاشی و سماجی ترقی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ صوبے میں بلوچ افراد کی جبری گمشدگیاں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت اور غیر ملکی ایما پر پاکستان اور چین کے مفادات کو ضرب لگانے اور چین کے خلاف ایک محاز کھڑا کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ایسا منظم حملہ کرنا ایک بلوچ گروپ کے لیے ممکن نہیں، اس حملے میں پاکستان مخالف بیرونی قوتوں بشمول انڈیا اور افغانستان کی معاونت شامل تھی۔ لہذا بلوچستان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک موثر حکمت عملی بنانا ہو گی۔