ساری گولیاں غیرت مند صحافیوں کو کیوں لگتی ہیں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سید طلعت حسین اپنے ساتھی صحافی ابصار عالم پر حال ہی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں طاقتور پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہے اور اگر طاقتور قانون سے بالا اپنی ذات میں گم بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح دندناتے پھر رہے ہوں تو پھر ان کو روکنا بدترین نتائج پر ہی منتج ہو گا۔ مگر صحافی کا کام ہی ایسا ہے کہ تمام تر احتیاط کے باوجود اس کا پاؤں کسی نہ کسی کی دُم پر پڑ ہی جاتا ہے۔ تاہم اب تو محفوظ ترین سمجھے جانے والے شہر اقتدار اسلام آباد میں بھی غیرت مند صحافیوں کو سبق سکھانے کے لیے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔
طلعت حسین اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ اسلام آباد سے دور جگہوں پر صحافیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں تو سب جانتے ہیں۔ مگر اسلام آباد کے اندر صحافیوں کو اغوا کرنے اور گولیوں کا نشانہ بنانے والوں کا پتہ لگانا ناممکن ہے کیوں کہ انکے بارے میں سب جانتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایسے ہر قاتلانہ حملے کو غیر نصابی سرگرمیوں کے رجسٹر میں درج کروا کر کھاتا بند کروا دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ یے کہ چلنے والی تمام گولیاں مزاحمتی صحافیوں کی سمت ہی کیوں اڑی چلی آتی ہیں۔یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں دعوی کیا تھا کہ ابصارعالم پر حملے میں کوئی ایجنسی ملوث نہیں اور ایسا ان کی غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ تاہم ابصار عالم نے آرمی چیف کو جواب ایک ٹوئیٹ میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ کسی شخص کی بیمار پرسی نہیں کر سکتے تو اس پر بے بنیاد الزامات لگانے سے بھی باز رہیں۔
طلعت حسین اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ بظاہر ہم ایک جمہوریت ہیں۔ یہاں پر سینکڑوں چینلز، آزاد اخبارات، صحافیوں اور مدیروں کی تنظیمیں منتخب نمائندگان اور سول سوسائٹی کی مدد سے آزادی رائے کو سر آنکھوں پر رکھتی ہیں۔ لیکن اعداد و شمار کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔ فریڈم نیٹ ورک نامی ایک تنظیم نے اپنی 2021 کی رپورٹ میں ایک سال میں 148 میڈیا کُش واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس سے پچھلے سال میں ہونے والے واقعات سے 40 فیصد زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں پر حملوں کے 27 مقدمات درج کیے گئے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر قرار پایا۔
طلعت حسین کے مطابق یہ حقیقت بالخصوص پریشان کن ہے کیوں کہ اسلام آباد پاکستان کے تمام شہروں کی نسبت رقبے اور آبادی کے اعتبار سے درد سر پیدا کرنے والا شہر نہیں ہے۔ یہاں پر شہریوں اور پولیس کا تناسب سب شہروں سے زیادہ ہے۔ یہاں تمام انٹیلی جنس ایجنسیز کے دفاتر ہیں۔ افسر شاہی اپنے مکمل جاہ و جلال سے ہر روز اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ پارلیمان، عدالت عظمی، متحرک وکلا، سکیورٹی کیمرے، شہریوں کی حفاظت اور قانون کی بالادستی کے لیے چاک و چوبند ہیں۔ اسلام آباد میں سفارت کاروں کی بھرمار ہے۔ ان کی اپنی سکیورٹی کا انتظام اور ان کے لیے کیے گئے خصوصی تدابیر اس خطہ پاکستان کے چپے چپے کو ہر وہ تحفظ فراہم کرتی ہیں جس کا دوسرے شہروں کے رہائشی خواب میں بھی مطالبہ نہیں کر سکتے۔
مگر طلعت حسین کا کہنا ہے کہ اس آہنی حصار کے باوجود بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور کراچی کے مضافاتی علاقے اسلام آباد کی نسبت صحافت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ اسلام آباد میں کام کرنے والے صحافی اور مالکان اتنے اثر و رسوخ کے مالک سمجھے جاتے ہیں کہ تجزیاتی طور پر ان پر حکومتیں بنوانے اور گروانے کا الزام بھی اکثر عائد کیا جاتا ہے۔ ان کی ذاتی دوستیاں ہیں۔ تعلقات ہیں۔ طاقتوروں کے گھروں میں آنا جانا ہے۔ مگر پھر بھی یہ لوگ نہ اپنی جان بچا سکتے ہیں اور نہ ہی مسلسل دھمکیوں کو روکنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ایسی کسمپرسی تو دور دراز علاقوں کے میڈیا کے نمائندے بھی محسوس نہیں کرتے ہوں گے جس کا شکار آج اسلام آباد کے صحافی نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں ابصار عالم پر ہونے والا قاتلانہ حملہ مزید اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ طلعت کا کہنا ہے کہ بنیادی شخصی آزادیوں کی بدترین مثال ہونے کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ اسلام آباد میں صحافت کے خطرات کو پریشان کن انداز سے سامنے لایا ہے۔ ابصار عالم اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور پہاڑی علاقوں میں خاموش یا تاریک گزرگاہوں میں گھومتے ہوئے قاتلانہ حملے کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ چمکتی شام، سینکڑوں پڑے لکھے شہریوں کی موجودگی میں گھر سے چند گز کے فاصلے پر ایک پارک میں دو فٹ کے فاصلے سے گولی کا نشانہ بنے۔ ابصسر کا حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار نہیں تھا۔ دیدہ دلیری یہ ہے کہ وہ اپنے ہدف کے پارک میں داخل ہونے کے 20 منٹ بعد اس کے تین چکر لگا چکا تھا۔ اس نے درخت کے پیچھے سے چھپ کر وار نہیں کیا۔ اس نے نہایت دیدہ دلیری سے کھلے آسمان کے نیچے، سب کے بیچ ہاتھ سیدھا کر کے گولی چلائی اور پھر اپنی ٹانگوں پر بھاگتا ہوا ایسے نکل گیا جیسے مکھن میں سے بال۔
لیکن طلعت کے مطابق قسمت ابصار عالم کے ساتھ تھی۔ چند خدا ترس گاڑی سوار جوانوں نے ابصار کو بروقت ہسپتال منتقل کر دیا اور وہ گولی جس نے اس کو اگلے جہاں پہنچانا تھا اس کی آنت میں سوراخ کیے بغیر اپنی حدت سے اپنے دیے ہوئے زخم کو وقتی طور پر مندمل کرتی ہوئی جسم کے دوسری جانب سے نکل گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عموما بڑی آنت کو نشانہ بنانے والی گولی درجن سے زائد جگہوں پر اپنے جان لیوا زخم چھوڑتی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو حالات ایک اور بدترین سانحے کو جنم دے چکے ہوتے۔
طلعت حسین افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واقعے پر چند نام نہاد صحافیوں نے نیم خوشی کے عالم میں جس طرح شکوک و شبہات کا اظہار کیا وہ ابصار عالم پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے کم نہیں۔ ان افواہ سازوں کے معیار کے مطابق جب تک خون آلودہ چھلنی کی ہوئی لاش نظر نہ آئے تب تک حملہ حملہ نہیں ہوتا۔ وہ حملے کی زد میں آئے ہوئے شخص سے کفن کی ضمانت حاصل کیے بغیر اس کے زخموں کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
حملہ آور کی گولی اور ان کے ٹویٹ اور تجزیے اسی نفرت میں ڈوبے ہوئے ہیں جس نے اسلام آباد کی دلکشی میں چھپے ہوئے بدصورت عنفریتوں کو بے لگام کر دیا ہے۔ اسی لیے تو صحافیوں پر ہونے والے ہر قاتلانہ حملے کو غیر نصابی سرگرمیوں کے رجسٹر میں درج کر کے کھاتا بند کر دیا جاتا ہے۔ نہ جانے تمام غیرت مند گولیاں مزاحمتی صحافیوں کی سمت ہی کیوں چلی آتی ہیں؟