بغاوت کیس میںARY کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی

افواج پاکستان کے رینک اینڈ فائل میں رخنہ ڈالنے اورجوانوں کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی گرفتاری کے بعد اس سازش میں مرکزی کردارادا کرنے والے اے آر وائے نیوز چینل کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ بغاوت کے مقدمے میں اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال کو نامزد کرنے کے بعد چیف کے وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف کو بھی کراچی میں انکی ڈیفنس رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا یے کہ شہباز گل نے اے آر وائی پر فوج بارے جو زہریلی گفتگو کی اس میں عمران خان کے علاوہ سلمان اقبال اورعماد یوسف کی ان پٹ بھی شامل تھی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بغاوت کیس میں ابھی مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس کی درخواست پر عدالت نے شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے شہباز گل کو عمران کا چیف آف سٹاف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا یے۔ پی ٹی آئی اسلام آباد کے صدر علی نواز اعوان کی جانب سے ایس ایچ او بنی گالا تھانے کو لکھے گئے خط میں شہباز گل کو عمران کا سٹاف ممبر قرار دیا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 10 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیشی کے موقع پر پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے کوئی ایک بھی لیڈر شہباز گل سے اظہار یکجہتی کے لئے نہیں پہنچا۔ عدالت میں شہباز گل کی نمائندگی فواد چوہدری کے چھوٹے بھائی فیصل چوہدری نے کی۔ دوسری جانب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت خود کو شہباز گل سے دور کر رہی ہے۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل اسد عمر نے نے شہباز گل کے فوج مخالف بیان کی مذمت کر دی ہے۔ عمران کے اہم ترین اتحادی وزیراعلی پنجاب پرویز الہی نے بھی سخت الفاظ میں شہباز گل کے بیان کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو شہباز گل کے بیان سے دوری اختیار کرنی چاہیے کیونکہ اس نے پارٹی کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان کیا ہے۔
دوسری جانب 10 اگست کو بغاوت کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی اور میڈیا کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پیشی کے موقع پر شہباز گل نے مختصر گفتگو میں کہا کہ ادارے ان کی جان ہیں اور وہ ان سے محبت کرتے ہیں لیکن انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جسمانی ریمانڈ کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ دیا جائے.تاہم عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور گل دو روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے سماعت جمعے 12 اگست تک ملتوی کر دی۔
دوسری جانب بغاوت کیس کی ایف آئی آر میں اے آر وائے نیوز کے مالک سلمان اقبال کے علاوہ چینل کے وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف کو بھی نامزد کر دیا گیا جس کے بعد 9 اگست کی رات عماد کو کراچی ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ اے آر وائی سے منسلک صحافی کاشف عباسی نے ٹوئٹر پر چینل کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گھر سے گرفتاری کی خبر دی۔ کاشف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’آے آر وائی نیوز کے سینیئر نائب صدر عماد یوسف کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے اٹھا لیا گیا ہے۔ آدھی رات کو لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھانا مضحکہ خیز ہے۔ ان کا اور دیگر افراد کا نام دوپہر کو گرفتاری کے لیے دیا گیا۔ یہ مکمل طور پر ہراسانی ہے۔‘ تاہم اس گرفتاری کے بعد چند سینیئر صحافیوں نے عماد یوسف کے بارے میں انکشاف کیا کہ ان کا کوئی صحافی پس منظر نہیں تھا، اور وہ ماضی میں ایک کوکنگ شو کے منیجر کے طور پر اے آر وائی سے وابستہ ہوئے تھے۔ صحافی محسن ریاض نے ٹوئیٹر پر سلمان اقبال کو مخاطب ہو کر کہا کہ نان پروفیشنلز کو آپ نے ہیڈ آف نیوز بنا کر اپنے چینل کو خود ہی نان پروفیشنل بنایا جس پر برطانیہ میں آپ پر ہتک عزت کے 13 مقدمات درج ہوئے جو آپ ہار گئے۔ صحافی نے لکھا کہ عماد دراصل سلمان اقبال کے ذاتی، خاندانی اور کاروباری معاملات کو دیکھ رہے تھے۔ صحافی نے سلمان اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ شہباز گل نے بغاوت پر اکسانے والا ڈرامہ آپ کی مرضی سے سٹیج کیا ہوا ہوگا۔ صحافی نے سلمان اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا کے اگر شہباز گل کے موبائل سے عماد یوسف سے رابطہ اور سازش میں ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے تو پھر آپ کیا کریں گے؟
سینیر صحافی آصف بشیر چوہدری نے بھی ٹوئٹر پر سلمان اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ذوق ٹی وی پر کھانا پکانے کی ترکیبیں بتانے والے باورچی عماد یوسف کو آپ ہی نے ہیڈ آف نیوز بنایا تھا لہٰذا اب کسی سے کیا گلہ۔میڈیا کو تقسیم کرنے کے لیے آپ نے میر شکیل الرحمن کے خلاف اپنا کندھا ایجنسی کو پیش کر کے اس سلسلے کی بنیاد خود رکھی لہذا اب خود ہی بھگتیں۔ سینئر صحافی اعزاز سید نے بھی سلمان اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ ویسے جیو پر پابندیاں لگانے میں آپ آگے آگے تھے، تب ہم آپک لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ کل آپکی باری بھی آسکتی ہے مگر آپ کو شرم نہ آئی۔
اس دوران ریاستی کریک ڈاؤن کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے اے ار وائے کے مالک سلمان اقبال نے ٹویٹ کرتے ہوئے فوج سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ اے آر وائی ملکی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ سلمان اقبال نے عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کے اس بیان کی مذمت بھی کی ہے جو ان کے اپنے ٹی وی چینل پر چلا تھا اور جس میں انہوں نے فوجی جوانوں کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی تھی۔ اے آر وائی نیوز پر میزبان کاشف عباسی نے سلمان اقبال کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا ادارہ اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے آر وائی فوج کے خلاف کسی مہم کا حصہ نہیں ہے۔ کاشف عباسی نے سلمان اقبال کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اے آر وائے ادارے کے طور پر کبھی بھی فوج یا کسی اور ادارے کے خلاف مہم کا حصہ نہ بنا ہے اور نہ آئندہ بنے گا۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں تو چینل پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کا کوئی گٹھ جوڑ ہے۔ اے آر وائے ہمیشہ سے فوج کی عزت کرتا ہے، اور پاکستان کے لیے ایک مضبوط فوج کا حامی ہے۔ ہم ایک پلیٹ فارم ہیں، شہباز گل نے ٹرانسمیشن میں آ کر اپنی رائے دی۔ ادارے کو پتا نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی گفتگو کریں گے کہ لوگ فوجی قیادت کا حکم نہ مانیں۔ یہ ہمارے لیے بھی سرپرائز تھا۔
لیکن دوسری جانب اسلام آباد میں اے آر وائی کے بیورو چیف خاور گھمن نے سلمان اقبال کے اس موقف کے برعکس موقف پیش کرتے ہوئے بی بی سی کو کہا کہ انکے چینل نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور وہ پیمرا کے اس غیر قانونی اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ ان کے مطابق اے آر وائی نے شہباز گل کا موقف بیان کرکے اپنی پروفیشنل ذمہ داری پوری کی ہے اور حقائق پر مبنی خبر بریک کی۔ ان کے خیال میں شہباز گل کے بیان میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو فوج مخالف ہو۔ واضح رہے کہ خاور گھمن اس پروگرام میں بطور تجزیہ کار بھی موجود تھے جس میں شہباز گل نے فوج مخالف بیان دیا تھا۔