شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ خود فریبی کیوں ہے؟
شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے بیانیے کے برعکس فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی خواہش کو بعض تجزیہ کارنان پریکٹیکل اپروچ یا خود فریبی قرار دیتے ہیں کیونکہ ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ موجودہ فوجی قیادت بھی اتنی ہی فراخدلی کے ساتھ ماضی کی غلطیوں سے تائب ہوکر سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے راضی ہو جائے۔
سنیئر صحافی طلعت حسین اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے دوستی بارے اس سے کہیں زیادہ ذہنی دھند کا شکار ہیں جو نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی پر چھائی ہوئی ہے۔ لیکن طلعت کہتے ہیں کہ یہ فرق ضرور ہے کہ مزاحمت و اعتراض کرنے والے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ آئین، قانون اور تاریخ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسی تسلی شہباز شریف کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ شہباز شریف کیمپ کا یہ کہنا جائز ہے کہ ان کی سیاست کی جڑوں میں کسی انقلاب کا خون نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرکے قافلے کو آگے بڑھانے والا لائحہ عمل ہے۔ طلعت کے مطابق یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ نواز شریف پاناما کیس میں خود اہنی وجہ سے جکڑے گے جس نے ان کو طاقت، سیاست اور جلاوطن کرنے کا ماحول بنایا۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ مریم نواز ہر وقت تلوار اٹھا کر جو سیاسی خونریزی کرتی ہیں اس کے نتائج شہباز شریف کو بھی بھگتنے پڑے ہیں ۔
طلعت حسین کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کچھ غصہ مریم اور نواز شریف پر نکلا مگر زیادہ متاثر شہباز شریف ہوئے۔ نواز شریف کی اولاد کے بر عکس ان کے کاروبار پاکستان میں ہیں جہاں پر ریاستی اداروں کا زور زیادہ چلتا ہے، لہذا شہباز شریف کی بازو مریم نواز کی سیاست کی وجہ سے زیادہ مروڑی گئی۔ اس اعتراض کا جواب دینا بھی مشکل ہے کہ نواز شریف موجودہ پالیسی کو کب تک چلا پائیں گے۔ وہ کون سی منزل ہے جو اپنے جنگجوانہ رویے سے قریب آتی نظر آ رہی ہے۔ طلعت خے مطابق تین سال سے چلنے والے مسلسل جھگڑے نے اسٹیبلشمنٹ کی آنے والی قیادت کو بھی نواز۔لیگ کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیا ہے۔ لہازا کہا جا رہا ہے کہ جو مسائل اب کھڑے کیے گئے ہیں وہ موجودہ فوجی قیادت کے جانے سے بھی حل نہیں ہوں گے۔ نئے آنے والے بھی پچھلے چار سال کی تاریخ سے ہونے والی ذہن سازی کے ماتحت رہیں گے۔ وقت گزرتا جائے گا، لڑائی جاری رہے گی۔ نہ کوئی نتیجہ نکلے گا، نہ فائدہ ہو گا۔ مگر ہر شکوے کا جواب بھی ہوتا ہے۔
طلعت حسین کے مطابق جواب شکوہ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ مفاہمت کا اگلا قدم کیا ہوگا اور یہ کیسے حاصل کی جائے گی؟ انکا کہنا یے کہ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید جاتی عمرا تو نہیں جائیں گے۔ نہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیٹھ کر نیا سیاسی معاہدہ طے کریں گے۔ تو پھر وہ میز کہاں سجے گی جس پر بیٹھ کر شہباز شریف اپنے مفاہمتی فارمولے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے سامنے رکھیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ ٹیبل کتنی وسیع ہوگی؟ اس پر عمران خان کی جماعت کی کرسی دونوں جنرل صاحبان کے درمیان میں رکھی ہوگی، دائیں ہوگی، بائیں ہوگی، اونچی ہوگی یا وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ میز کو الٹانے سے پہلے اس پر پڑی چیزوں سے شریف خاندان، بھٹو خاندان اور فضل الرحمان پر تاک تاک کر نشانے نہیں لگائیں گے؟
طلعت کہتے ہیں کہ اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کے ذریعے سیاسی کھیل کے نئے قوائد وضع ہوں گے؟ اور پھر ایجنڈا آئٹم کیا ہوں گے؟ کیا شہباز شریف فوج اور انٹیلی جنس کے سربراہان کو بتائیں گے کہ خارجہ اور دفاعی امور کا کتنا حصہ راولپنڈی اور آبپارہ میں طے ہونا ہے اور کتنا وزیراعظم ہاؤس میں؟ معیشت میں سے فوج کو مستقل بنیادوں پر کتنے پیسے مختص ہونے ہیں اور کتنے عوام کے لیے رکھنے ہیں؟ مہینے میں کتنے سیاست دان فوجی سربراہ سے مل سکتے ہیں اور کیا کور کمانڈر کو سیاست دانوں سے ملنے کی اجازت ہوگی؟جج صاحبان کو فیصلوں کی آزادی ہے یا نہیں؟ ذرائع ابلاغ اور اس کے مالکان کتنی ہدایات لے سکتے ہیں اور کہاں سے؟ کیا صرف آئی ایس پی آر کی سننی ہے یا وزارت اطلاعات کی بھی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کون سے صحافی ڈنڈے سے سدھارے جائیں اور کون سے وٹس ایپ پیغامات کے ذریعے؟سیاست دانوں کے خلاف موجودہ مقدمات کس نے اور کیسے واپس لینے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ سب مفاہمت کے نکات ہوں گے اور کیا ایسا کیا ایسا لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو گا یا کسی پردے کے پیچھے خاموش نشست ہو گی؟
طلعت کے مطابق سب سے بڑا سوال یہ کہ یہ مفاہمت ہوگی کیسے؟ انکے خیال میں مفاہمت کا طریقہ کار طے کیے بغیر اس کی رٹ لگا کر خواہ مخواہ کی سیاسی کنفیوژن پیدا کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف یا تو مفاہمت کے خدوخال بیان کر دیں اور اس کے طریقہ کار پر روشنی ڈالیں اور یا پھر اس کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں۔
دوسرا نکتہ شہباز شریف کی اپنی سیاست سے متعلق ہے۔ طلعت کے مطابق ان پر بننے والے مقدمات کا تعلق نواز شریف کی پالیسی سے نہیں، ان کی اپنی حکومت کے منصوبے اور ان کے خاندان کے کاروبار سے ہے۔ اس پر کوئی یقین نہیں کرتا کہ شہباز شریف نواز شریف کے مبینہ سخت بیانات کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔ان کا بڑا بھائی اگر مسلسل چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا تب بھی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات بننے ہی تھے۔اگر وہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں کسی جماعت کے نمائندے ہوتے تو جو من میں آتے کرتے، کوئی کچھ نہ پوچھتا۔ بغیر پرمٹ کی گاڑیاں لاتے، نقلی سیگریٹ بیچتے یا شہد کا کاروبار کرتے، سب کچھ جائز تصور ہوتا۔ مگر چونکہ پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھتے ہیں لہذا ان کے غم کم نہیں ہو سکتے۔ طلعت کے مطابق عمران خان کا احتساب اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا ن لیگ کی پنجاب میں سیاست کو بظاہر لگام ڈالنے کے لیے ہے، جس کے بغیر پاکستان میں سیاسی تجربہ گاہ نہیں چل سکتی۔ اور پھر آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف مفاہمت کی بات اپنی ذاتی سیاست اور کاروبار کے زاویے سے کرتے ہیں۔ وہ بےشک اپنے پالیسی کے عمومی فائدے گنواتے رہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر اپنے لیے سہولت مہیا کروانا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ میرے خیال میں یہ کوئی قابل اعتراض فعل نہیں ہے۔ کسی کو بھی بغیر جرم کے معاشی و سیاسی و ذہنی و کاروباری تکلیف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا حق سب کا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ شہباز شریف نے مفاہمت بھی کی اور جیل بھی کاٹی۔ لہازا فی الحال وہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ لہازا سوال یہ ہے کہ یہاں سے وہ کدھر جائیں گے؟ اس کے بعد وہ کیا ایسا کریں گے جو انہوں نے پہلے نہیں کیا اور جس کے باوجود ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو مزاحمت اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ طلعت اپنا تجزیہ سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری نظر میں ان حالات میں مفاہمت ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔