صحافیوں کے کیس میں عدالتی تاریخ کا انوکھا فیصلہ

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں صحافیوں کی جانب سے بے جا گرفتاریوں اور انہیں ہراساں کیے جانے کے خلاف دائر کردہ کیس تب مزید لٹک گیا جب پانچ رکنی بینچ نے انہیں ریلیف دینے والا جسٹس فائز عیسی کے دو رکنی بینچ کا ازخود نوٹس اور حکم نامہ واپس لے لیا۔
اس سے پہلے عدالتی کارروائی کے دوران درخواست گزار سینئر صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر خان جدون نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ پر اعتراض بھی کر دیا تھا۔
26 اگست کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایف آئی اے کے ہاتھوں حکومت اور ریاست کے ایما پر صحافیوں کی بلا جواز گرفتاریوں اور انہیں مسلسل ڈرانے دھمکانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے از خود نوٹس کو واپس لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی از خود نوٹس لے سکتے ہیں اور اس کیس کا فیصلہ بھی چیف جسٹس ہی کرینگے۔ پانچ رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 20 اگست کو جسٹس فائز عیسیٰ کے دو رکنی بینچ کی جانب سے جاری کیا جانے والا حکمنامہ واپس لینے کا فیصلہ دیا اور کہا کہ صحافیوں کا کیس اب چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا جا رہا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کسی بھی بنچ کو کسی بھی معاملے کا از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل نہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس گلزار کی عدم موجودگی میں اس وقت جسٹس عمر عطا بندیال ہی چیف جسٹس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ تاہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب صحافیوں کی درخواست کا فیصلہ چیف جسٹس ہی کریں گے اور اس معاملے پر بنچ بھی وہی تشکیل دیں گے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ مستقبل میں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری لازمی ہوگئی۔ پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ ایسے معاملات میں کوئی بھی بنچ ازخود نوٹس لے کر نہ تو کسی ادارے کو طلبی کا نوٹس جاری کر سکتا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔
صحافیوں کو ریلیف دینے کی بجائے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لینے کے اصول وضع کرتے ہوئے قرار دیا کہ ازخودنوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہوگا، کوئی عدالتی بینچ ازخود نوٹس نہیں لے سکے گا۔ یوں جسٹس عمر عطا بندیال کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دو رکنی بنچ کا 20 اگست کا فیصلہ واپس لے لیا.
عدالت نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ، عامر میر، عبدالقیوم صدیقی، اسد علی طور اور عمران شفقت کی جانب سے صحافیوں کو بلاجواز گرفتار کرنے اور ہراساں کرنے کے خلاف درخواست کوچیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی فائز عیسی بنچ نے 7 اگست 2021 کو سنیئر صحافی عامر میر اور وی لاگر عمران شفقت کی گرفتاری کے معاملے میں ایف آئی اے کی جانب سے اعلی عدلیہ کو ملوث کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو 26 اگست کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ دو رکنی بینچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کیوں کی اعلیٰ عدلیہ آزادی اظہار کو یقینی بنانے کی بجائے صحافیوں پر جبر کے واقعات میں حکومت اور ریاست کی معاون اور مددگار بنی ہوئی ہے؟ لیکن اب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ حکم نامہ معطل کر دیا ہے۔
تاہم 26 اگست کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کیخلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہوگی کیونکہ آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کیساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں ہیں. صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اور اس پر کارروائی بھی ہوگی. انہوں نے کہا کہ عدالت نے قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنا ہوتی ہے. بنچ کے ایک اور رکن جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے.
لیکن اس موقع پر درخواست گزار سینئر صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر خان جدون نے سپریم کورٹ کے بنچ پر اعتراض کر دیا. اعتراض کے جواب میں جسٹس قاضی امین نے کہا بنچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نقطے پر دلائل تو دیں کہ درخواست کو قانونی طریقے سے دائر کیوں نہیں کیا گیا؟ بنچ کے ایک اور رکن جسٹس منیب اختر بولے کہ 20 اگست کو سپریم کورٹ کا آفس کھلا ہوا تھا تھا، درخواست وہاں کیوں نہیں دی گئی؟ عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کہا اصل مسئلہ فوری ریلیف کا تھا اس لئے جو بنچ ملا اس میں درخواست دائر کر دی گئی. جہانگیر جدون نے کہا کہ جن اداروں کو نوٹس ہوا، وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اور عدالت نے خود ہی اعتراض لگا کر نیا بنچ بنا دیا.
قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوموٹو کیسز میں سرکاری ادارے کسی کی درخواست پر اعتراض نہیں کر سکتے. انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر بنچ سوموٹو نوٹس لے سکتا ہے لیکن سوموٹو پر بنچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے. سپریم کورٹ رولز آئین کے تحت بنے ہوئے ہیں. جسٹس قاضی امین نے کہا صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں۔ جہانگیر جدون نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عامر میر اور دیگر صحافیوں کے ساتھ جو بھی لوگ زیادتی کر رہے ہیں ان کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے اور اسی لئے دو رکنی بینچ نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور سیکرٹری داخلہ کے علاوہ دیگر حکومتی افسران کو طلب کیا تھا۔
تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اصل سوال یہ ہے کہ سوموٹو اختیار کے استعمال کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس کا ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ اس موقع پر وائس چیئرمین پاکستان بار نے عدالت میں کہا کہ مانا کہ کسی سائل کو مرضی کے بینچ میں مقدمہ لگانے کی اجازت نہیں ہے تاہم عوام کو عدلیہ سے فوری انصاف کی توقع ہوتی ہے اور یہ کیس لٹک گیا ہے. انہوں نے کہا کہ تکنیکی نقاط کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے. ویسے بھی ماضی میں ایک نو رکنی سپریم کورٹ بنچ قرار دے چکا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے عدالت کسی طریقہ کار کی پابند نہیں.

Back to top button