ضمنی الیکشن ملکی سیاست کا رخ کیسے بدلیں گے؟
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات حکومت اور اپوزیشن کے لیے سیاسی بقا کا معاملہ بن چکے ہیں، شاید یہ پہلی بار ہے کہ کوئی ضمنی الیکشن اتنی اہمیت اختیار کر رہا ہے کہ اس کے لیے سابق وزیراعظم کئی دن سے میدان میں نکلے ہیں اور وفاقی وزرا استعفے دے رہے ہیں۔سیاسی پنڈت اس معرکے کو اس لیے بھی اہمیت دے رہے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف پنجاب کے اقتدار کا فیصلہ ہوگا بلکہ پاکستان کی قومی سیاست کی سمت کا بھی تعین ہو گا۔انتخابات تو صرف 20 حلقوں میں ہو رہے ہیں مگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا دارومدار اب ان 20 حلقوں پر ہے۔ یہاں کامیابی مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو مستقل وزیراعلٰی بنا سکتی ہے یا پھر دوسری صوت میں تحریک انصاف کے امیدوار سپیکر پرویز الٰہی کو وزارت اعلٰی سونپ سکتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلی اگر اپوزیشن جماعت کے پاس ہو تو خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق میں حکومت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔مسلم لیگ نواز کو وزارت اعلٰی برقرار رکھنے کے لیے کم سے کم نو نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی جبکہ پی ٹی آئی کو وزارت اعلی کی دوڑ جیتنے کے لیے ان بیس میں سے پندرہ نشستیں جیتنا ہوں گی۔ان انتخابات میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا منظرنامہ کیا ہو گا۔ کیا پاکستان تحریک انصاف کا بیرونی سازش اور مہنگائی کا بیانیہ کامیاب ہو گا یا مسلم لیگ ن کا ترقی اور معشیت سنھبالنے کا بیانیہ مقبول ہو گا؟ ان 20 حلقوں کے نتائج بہرحال یہ بتانے کے لیے کافی ہوں گے کہ کس جماعت کے بیانیے کا پلڑا بھاری ہے۔
ان تمام 20 نشستوں پر 2018 کے انتخابات میں جیتنے والے امیدواران یا تو تحریک انصاف کے تھے یا آزاد منتخب ہو کر پی ٹی آئی کے حامی بنے مگر ان میں مسلم لیگ ن ناکام رہی تھی۔اراکین کو وزارت اعلٰی کے لیے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر الیکشن کمیشن نے ان اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔گویا اگر اس بار مسلم لیگ ن یہاں اکثر نشتسیں جیتینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو امیدواروں کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ یہ پارٹی کی جیت بھی ہو گی۔پی ٹی آئی کی کامیابی سسٹم تبدیل کر سکتی ہے؟اگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی پندرہ کے قریب نشتسیں حاصل کر لیتی ہے تو اسے صوبے کی وزارت اعلٰی مل سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’الیکشنز کا ملکی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔ اگر پی ٹی آئی کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وفاق میں نظام حکومت بری طرح متاثر ہو جائے گا اور نہ صرف مسلم لیگ ن صوبے کی حکومت سے ہاتھ کھو بیٹھے گی بلکہ اسے عمران خان کے عام انتخابات جلد کروانے کے مطالبے کو بھی ماننا پڑے گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد احمد عارف سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کامیاب ہونے کی صورت میں عمران خان یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنا لیں۔ اس صورت میں وفاقی حکومت کی عمل داری مارگلہ کی پہاڑیوں سے فیض آباد تک ہی رہ جائے گی کیونکہ اسلام آباد کی سرحد جن دو صوبوں سے لگتی ہے، ان دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی۔ان کے مطابق ’اس صورت میں عمران خان حکومت کو اپنی مرضی کی تاریخ پر انتخابات کروانے پر مجبور کر دیں گے کیونکہ مسلم لیگ ن بھی نہیں چاہے گی کہ وہ ایسی حکومت کرے جس کی عمل داری اتنی محدود ہو۔‘ان کا کہنا تھا کہ 1993 میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی سابق وزیراعظم نواز شریف کی مرکز میں حکومت پنجاب اور کے پی میں مخالف حکومتوں کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہی گئی تھی اور انہیں استعفی دینا پڑا تھا۔
سہیل وڑائچ کے مطابق مسلم لیگ ن کی کامیابی کی صورت میں وفاقی حکومت کو استحکام مل جائے اور فوری عام انتخابات کا امکان ختم ہو جائے گا اور اگلے سال عام انتخاب نہیں ہوں گے۔دوسری جانب ارشاد عارف سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ناکامی کی صورت میں عدم استحکام بڑھ جائے گا کیونکہ عمران خان نے آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرنی۔’وہ پہلے ہی ایسے ماحول بنا چکے ہیں جس میں ان کے حامیوں کو یقین ہے کہ اگر الیکشن شفاف ہوئے تو صرف وہی جیتیں گے۔‘ان کے بقول اس صورت میں وہ ہار کو قبول نہیں کریں گے اور دیکھنا یہ ہو گا حکومت کیا ردعمل دکھائے گی کیا وہ ان پر آرٹیکل چھ لگا کر گرفتار کرے گی؟’ایسی صورت میں عدم استحکام اور بڑھے گا کیونکہ سیاسی مسائل سیاسی طریقے سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔‘
سیاسی پنڈت پنجاب کے الیکشن پر حتمی رائے دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ گو کہ یہ تمام نشستیں ماضی میں پی ٹی آئی کی رہ چکی ہیں مگر 2018 اور 2022 کے حالات میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر مریم نواز کے جلسے تو خاصے بڑے اور متاثر کن ہیں تاہم اصل فیصلہ سترہ جولائی کو ہی ہو گا کہ کون سی جماعت زیادہ سپورٹرز کو ووٹنگ کے لیے نکالنے میں کامیاب ہو گی۔پاکستان بالخصوص پنجاب کے درجنوں گزشتہ انتخابات کی کوریج کا تجریہ رکھنے والے سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ بارہ نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو برتری حاصل ہے جبکہ آٹھ پر پی ٹی آئی امیدوار برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔دوسری طرف کئی اداروں کے مدیر رہنے والے لاہور کے سینئر صحافی ارشاد احمد عارف کی رائے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں صاف شفاف انتخابات میں پی ٹی آئی میدان مار سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے اس وقت آٹھ نشستوں پر پی ٹی آئی واضح طور پر آگے ہے جبکہ پانچ پر مسلم لیگ ن واضح طور پر آگے ہے اور باقی سات نشستوں پر سخت مقابلہ ہے۔اندازے اپنی جگہ مگر انتخابات کا حتمی نتیجہ 17 جولائی کی ووٹنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔