عمران خان کیلئے مشکلات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جیل میں قید کو 100 دِن ہو چکے ہیں۔ عمران خان کے خلاف جہاں مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ تو وہیں الیکشن کمیشن آئندہ سال فروری میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق ہر گزرتے دِن کے ساتھ عمران خان کی اور اور اُن کی جماعت کی مشکلات میں بڑھ رہی ہیں۔پی ٹی آئی کے اراکین تیزی سے اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں کا حصہ بن رہے ہیں یا سیاست کو ہی خیر باد کہہ رہے ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اب بھی ایسے ہیں جو پارٹی کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ تاہم وہ منظرِ عام سے غائب ہیں یا انہوں نے زباں بندی کی ہوئی ہے۔مبصرین کی رائے میں انتخابات قریب آنےپر عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
تحریکِ انصاف عمران خان کی 100 دِنوں سے زائد اسیری کو نا حق اور غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ 20 ماہ سے ریاست ،آئین، قانون اور اقدار کو پیروں تلے روند کر محض ظلم، بربریت اور غنڈہ گردی کے ذریعے عمران خان کے حوصلے کو توڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ان کے خلاف اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں 150 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ اگست میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ روپئے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔اِسی طرح سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت نہیں ہو سکی ہے جبکہ نیب حکام نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں ان کو گرفتار کر لیا ہے۔اِس دوران دیگر مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جا چکی ہے۔مبصرین سمجھتے ہیں کہ ایک چیز واضح ہے کہ جیل میں قید عمران خان کو درپیش قانونی چیلنجز میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے گرفتار رہنے میں دو باتیں اہم ہیں۔اول یہ کہ جن مقدمات میں وہ گرفتار ہیں ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اُن میں وقت تو لگتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بظاہر نو مئی کے واقعات اور اُس کے بعد کی جو صورتِ حال ہے اُس کی وجہ سے یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ عمران خان کو جیل سے باہر کم از کم انتخابات تک تو نہیں آنے دیا جائے گا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ایسا بھی نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کو ذاتی طور پر اور جماعت کے سربراہ کے طور پر انتخابات میں کسی قسم کا حصہ بھی نہیں لینے دیا جائے گا۔ لہٰذا یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور ہو بھی رہا ہے۔ ایک مقدمے کے بعد دوسرا مقدمہ بن رہا ہے۔ نوے دِنوں کی عمران خان کی گرفتاری کے عرصے میں اُنہیں کسی بھی ایک پیشی پر ذرائع ابلاغ تک رسائی نہیں دی گئی۔ان کے مطابق جہاں تک بات ہے مقدمات کی تو دو تین مقدمات اُن پر سنجیدہ نوعیت کے نظر آتے ہیں۔ جس سے اُن کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔مظہر عباس نے مزید کہا کہ مشکلات صرف عمران خان کے لیے نہیں بلکہ اُن کی جماعت کے لیے بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کو انتخابات میں وہ جگہ نہیں مل رہی جو دوسری سیاسی جماعتوں کو مل رہی ہے۔ ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ جب انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو گا تو کاغذاتِ نامزدگی کے مرحلے پر کیا ہو گا۔اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک پی ٹی آئی کو کسی بھی قسم کی کارنر میٹنگ یا جلسے کی اجازت نہیں ملی۔ پی ٹی آئی کے لوگ آئے روز گرفتار ہو رہے ہیں جب کہ متعدد قائدین اُنہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
عمران خان کو انتخابت سے قبل کسی قسم کا ریلیف ملنے کے حوالے سے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اِس بات کا انحصار بنیادی طور پر خود عمران خان پر ہے کہ اُن کا رویہ کیا ہے۔ان کے بقول ان کے رویے کو دیکھتے ہوئےکوئی راستہ نکل سکتا ہے مگر بظاہر یہ بھی مشکل لگتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اِس میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی کوئی کہہ رہا ہے تو اُس کا اعتبار ہو۔ موجودہ صورتِ حال میں عمران اور دوسرے فریق کے درمیان اعتماد نہیں ہے تو اس صورت میں بات آگے کیا بڑھے گی اور اگر بات بڑھی بھی تو انتخابات کے بعد ہی بڑھے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران خان کے رویے میں لچک کے بارے میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ وہ اِس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان اپنے رویے میں نرمی اور سیاسی لچک دکھا پائیں گے یا نہیں ۔ان کے بقول اگر انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کو اُس طرح کی لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملتی تو ظاہر کےانتخابات پر سوالات تو اُٹھیں گے۔
نو مئی کے واقعات کے حوالے سے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات کے ذمہ دار عمران خان ہیں یا نہیں، اِس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ اُن پر جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان کی سماعت ہونی چاہیے جو ہو بھی رہی ہے ۔ان کے بقول اِن مقدمات میں اگر عمران خان مجرم ثابت ہوتے ہیں تو اُنہیں سزا ملنی چاہیے اور اگر اُن کا جرم ثابت نہیں ہوتا تو اُنہیں چھوڑ دینا چاہیے۔اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف ایک کے بعد دوسرا مقدمہ قائم ہونے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ اِس سے پہلے بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے خیال میں نو مئی کے واقعات سے قبل ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف ڈگر چل پڑی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ نو مئی سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اُنہوں نے ارادی یا غیر ارادی طور پر پاکستان کی فوج کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔خاص طور پر اُس وقت جب عمران خان کے وزارتِ عظمٰی کے دور میں آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت مسئلہ پیدا کیا گیا۔