ایل این جی پر ایک صحافی دانستہ ایک تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ ایل این جی کے مسئلے پر ایک چینل کے صحافی دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہے۔
شبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کے معاملے پر میڈیا میں بہت پروگرام ہو رہے ہیں لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حوالے آپ کی وساطت سے عوام کو آگاہ کریں کہ حکومت کیا کر رہی ہے کیونکہ بحیثیت جمہوری حکومت ہم جوابدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی کے شعبے اور پیٹرولیم کے حوالے سے آپ کے جو بھی سوالات ہیں، تو وزیر یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ان سے یہ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ پچھلے تین چار ہفتے میں ایل این جی پر بہت سارے پروگرام کیے گئے ہیں اور کچھ پروگرام ہر میں بھی گیا، عمر ایوب صاحب بھی گئے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جواب دینے کے باوجود بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں میں دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے خصوصاً ایک چینل پر ایک اینکر جواب ملنے کے باوجود محض ایک سلیکٹڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے ہیں اور تصویر کشی کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ وہ ایک اچھے صحافی ہیں لیکن دانستہ یا غیردانستہ سلیکٹڈ ڈیٹا لے کر ایک تاثر دے رہے ہیں اور ایک تاثر کے لیے آلہ کار بن رہے ہیں، ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔ ندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس کو شامل نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایل این جی لے کر آتے ہیں جو مقامی گیس سے مہنگی ہے تو جب تک ہم اس ایل این جی کی قیمت وصول نہ کر پائیں اور ایسے خریدار جو پوری قیمت دینے کو تیار ہوں ہمارے پاس موجود نہ ہوں، اس وقت ہم انہیں ایل این جی نہیں بیچ سکتے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ اس وقت ایل این جی کی قیمت 1100 روپے فی ملین بی بی ٹی یو بنتی ہے لیکن یہی اگر مقامی گیس ہو تو اس کی اسط قیمت اس سے آدھی ہے لہٰذا پچھلی حکومت نے جو قانون بنایا اس کا ایک خاص مطلب ہے جو ہمارے اینکر صاحبان خصوصاً جن کا میں ذکر کر رہا تھا، وہ اس چیز کو جانتے بوجھتے نظرانداز کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اینکر اس ایل این جی کو گاجر مولی سمجھ رہے ہیں کہ میں جا کر بازار سے لے آؤں اور پرسوں میں کسی کو بیچ دوں گا، جو خریدار دگنی قیمت دینے کو تیار ہیں، میں اسی کو بیچ سکتا ہوں، میں اگر ایل این جی فالتو لے آؤں اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی کا اک کارگو ڈھائی کروڑ ڈالر کی ہے، اگر میرے پاس ایل این جی کے خریداروں کے کنفرم آرڈر نہیں ہیں تو میں ایل این جی لا کر کروں گا کیا؟۔ ندیم بابر نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے 800ملین کیوبک فٹ لانگ ٹرم کنتریکٹ پر لی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے ایل این جی آج لینی ہے تو جب میں پہلے 800 بیچ نہیں لوں گا، میں اگر کوئی اور خریدتا ہوں جو اس 800 سے اوپر ہے تو میں پھر اس مخمصے میں ہوں کہ میں اس فالتو ایل این جی کا کیا کروں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے ستمبر 2018 سے اس مہینے کے آخر تک ان 27مہینوں میں 35 کارگو ہم نے منگوائے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان 27 مہینوں میں سے 9 مہینے ایسے تھے کہ جب ہماری ایل این جی کی کُل فروخت 800 یا اس سے تھوڑی کم تھی، اگر میں فالتو ایل این جی لے آؤں تو میں ان ایک تہائی مہینوں میں کیا کروں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button