مذاکرات کی آفر، اسٹیبلشمینٹ نے نیازی کو ٹھینگا دکھا دیا؟
عمران خان نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کا راستہ راولپنڈی سے ہی آتا ہے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان پر قطعا اعتبار کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ مقتدر حلقوں نے تو عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی حالیہ آفر پر انھیں شٹ اپ کال دیتے ہوئے ٹھینگا دکھا دیا ہے دوسری جانب سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بنانے کی پوری کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکن اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلارہے ہیں، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سپورٹرز اپنے امیدواروں کے انتخابی نشانات کی پبلسٹی کر رہے ہیں۔ ایسا بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار پکے ہوئے پھل کی طرح کسی دوسری جماعت کی جھولی میں جاگریں گے، اگر کوئی بھی کامیاب امیدوار ایسا کرتا ہے تو اسے حلقے میں کارکنوں کے شدید ردعمل کا سامنا ہوگا، پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے انہیں اٹھانا پڑے گا، پھینٹی لگانی پڑے گی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کی امیدیں خلائی مخلوق سے وابستہ ہیں، خیبرپختونخوا کے کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی نے پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اپنے امیدواروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر آپ نے وفاداری تبدیل کی تو کارکن آپ کا احتساب کریں گے۔حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار اگر کامیابی کے بعد پارٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا ان سے زور زبردستی سے وفاداری تبدیل کروائی گئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے الیکشن سے پہلے کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔
حامد میر نے مزید کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے لوگ نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں ہماری اوپر بات ہوگئی ہے وزیراعلیٰ پنجاب ہمارا ہوگا، نواز شریف کے انتخابی مہم میں فعال نہ ہونے کی بڑی وجہ سیکیورٹی ہے۔
دوسری جانب بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں اقتدار کا راستہ راولپنڈی کے ذریعہ آتا ہے، سیاستدان جب تک ساتھ بیٹھ کر گیم کے رولز طے نہیں کریں گے تب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کے رولز کے مطابق کھیلنا پڑے گا، اسٹیبلشمنٹ کے رولز یہی ہیں کہ ایک سیاستدان اقتدار میں تو دوسرا جیل میں ہوتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار بینظیر شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ابھی بھی تیار نہیں ہیں، عمران خان کا اکانومسٹ میں آرٹیکل پڑھیں تو لگتا ہے ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، عمران خان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں سیاسی جماعتوں کو پیشکش کرنی ہوگی، عمران خان کو آن دا ریکارڈ کہنا ہوگا کہ میں آصف زرداری اور نواز شریف کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں کچھ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے بات کرنی چاہئے، سیاستدان جب تک ساتھ بیٹھ کر گیم کے رولز طے نہیں کریں گے تب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کے رولز کے مطابق کھیلنا پڑے گا، اسٹیبلشمنٹ کے رولز یہی ہیں کہ ایک سیاستدان اقتدار میں تو دوسرا جیل میں ہوتا ہے۔
دوسری جانب سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بڑی سیاسی غلطیوں میں ایک سیاستدانوں کے ساتھ نہ بیٹھنا ہے، عمران خان جن سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے رہے ان کے ساتھ نہ صرف ماضی میں بیٹھے بلکہ اتحاد کا بھی حصہ رہے ہیں، 2007ء میں عمران خان، نواز شریف اور قاضی حسین کے ساتھ اتحاد کا حصہ تھے، انتخابات میں 18دن رہ گئے کسی سیاسی جماعت نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنا موقف نہیں بتایا۔عمر چیمہ نے کہا کہ عمران خان کا جب دل کرتا ہے مذاکرات کی بات کرتے ہیں جب دل چاہے انکار کردیتے ہیں، عمران خان حسب سابق مذاکرات کے حوالے سے کنفیوژ نظر آرہے ہیں ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔اعزاز سید کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے علاوہ تمام سیاستدانوں کو چور سمجھتے ہیں، عمران خان سمجھتے ہیں اقتدار کا راستہ راولپنڈی کے ذریعہ آتا ہے، عمران خان نے سیاستدانوں کو اتنا مطعون کیا ہے کوئی ان پر اعتماد کیلئے تیار نہیں ہے، سیاستدان جانتے ہیں اسٹیبلشمنٹ اس وقت کسی صورت عمران خان سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ہے اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔